16دسمبر پھر آرہا ہے۔ جب بھی یہ دن آتا ہے، حساس دلوں پر بھالے برساتا ہے۔ 1971ء کے اس تاریخ سے قبل اور اس تاریخ کو ہونے والے درد ناک سانحے کے بعد سابق مشرقی پاکستان میں ظلم و بربریت کے ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ اگر اس داستانِ خونچکاں کوبیان کیا جائے، تو ہلاکو اور چنگیز خان کا دل بھی خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ مگر وائے قسمت کہ پاکستان کے قلم کار اور سیاسی تجزیہ کار صرف یہی راگ الاپتے رہیں گے کہ علیحدگی کا ذمّے دار کون تھا؟ دیکھا جائے تو پاکستان کے یہ دانش ور اور اکثر مورخین بھارت کے پروپیگنڈے سے ہی متاثر نظر آتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے آرمی آپریشن کے دوران بنگالیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ اور یہ کہ انتہا پسند بنگالی اور شیخ مجیب الرحمٰن آخر وقت تک پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ کوئی نہیں لکھتا کہ اس دن کے رونما ہونے کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ اور محبِ وطن پاکستانیوں کو مکتی باہنی نے بے دردی سے تہ تیغ کیا اور جو بچ گئے، انہیں ان کے گھروں، جائدادوں اور ملازمتوں سے نکال کر کھلے میدانوں میں ڈال دیا گیا۔ وہ لوگ آج پچاس برس بعد بھی کیمپوں میں پڑے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ جو غیر بنگالی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور علیحدگی پسندوں کی بغاوت کے دوران متحدہ پاکستان کی حمایت کی تھی، جس کے قیام کے لیے ہی وہ 1947ء میں بھارت کے اقلیتی صوبوں سے نکل کر مشرقی پاکستان گئے تھے۔ ان کا جرم یہی تھا کہ انہوں نے علیحدگی پسندوں کا ساتھ نہیں دیا تھا اور ملک بچانے اور بھارتی حملہ آوروں سے مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا۔ یہ غیر بنگالی جنہیں بہاری کہا جاتا ہے، بھارت کے صوبوں یوپی، سی پی، بہار، آسام، تری پورہ اور کلکتہ سے مشرقی پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی دعوت پر مشرقی پاکستان میں ریلوے، پٹ سن کے کارخانے اور پیپرز مل اور دیگر نظام چلانے کے لیے آئے تھے اور انہوں نے پاکستان کو آپٹ کیا تھا۔ چوبیس برسوں میں ان کی شبانہ روز محنت سے
ملک کا یہ صوبہ ترقی کی راہ پر گام زن ہوگیا تھا۔ 1971ء سے قبل ان غیر بنگالی مہاجرین کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ 25مارچ کے آرمی آپریشن سے پہلے ہی بغاوت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ میں بغاوت ہوگئی تھی۔ نیم فوجی ادارہ ایسٹ پاکستان رائفلز کے بنگالی جوانوں نے بغاوت کردی تھی۔ حتیٰ کہ پولیس اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے سویلین نے بھی کام چھوڑ دیا تھا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی یہ تمام عناصر اسلحہ سمیت بھارت کی جانب فرار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یہ باغی عناصر جاتے ہوئے جیسور، کھلنا، بھیرب بازار، دیناج پور، ٹھاکر گائوں، سنتا ہار اور میمن سنگھ کے علاقوں میں مقیم ان غیر بنگالیوں کا قتلِ عام کرتے گئے۔ سنتا ہار کی پچیس ہزار کی آبادی میں سے کوئی بھی بہاری مشکل سے زندہ بچا ہوگا۔ شہید ہونے والوں میں ضعیف، عورتیں اور شیرخوار بچّے تک شامل تھے۔ اسی طرح دیگر شہروں اور قصبوں میں اس وقت تک قتلِ عام ہوتا رہا جب تک فوج وہاں نہ پہنچی۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ آپریشن شروع ہوا تو ڈھاکہ میں علیحدگی پسند عناصر پہلے ہی بآسانی شہر سے نکل چکے تھے اور دیگر علاقوں میں فوج کہیں دو ہفتے، کہیں تین ہفتے اور کہیں چار ہفتوں کے بعد پہنچی۔ اس وقت تک کوئی محب وطن پاکستانی زندہ نہیں بچا تھا۔ اکثر علاقوں میں فوج کو لاشیں ہی لاشیں ملیں۔ حتیٰ کہ مسجدوں تک میں آٹھ آٹھ انچ جمے ہوئے خون ملے، جہاں ان نہتّے اور مظلوم لوگوں نے پناہ لی تھی۔ 16دسمبر کو جب سقوطِ مشرقی پاکستان ہوا تو یہ مفرور دہشت گرد واپس آگئے اور ان مظلوم لوگوں کو ایک بار پھر گولیاں مار کر ہلاک کرتے رہے۔ آبادیوں کے آبادیوں کو ٹرکوں اور بسوں میں بھر کر ندی کنارے لے جاتے اور گولیوں سے بھون دیتے۔ چشمِ دید گواہوں اور اکثرغیر ملکی نامہ نگاروں کے مطابق، دس سے پندرہ لاکھ غیر بنگالی ہلاک کردیے گئے تھے۔ اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ 1972ء میں جب تمام غیر بنگالیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے ان کے لیے عارضی کیمپس بنادیئے تھے۔ اسی سال عالمی ریڈ کراس نے کیمپوں میں پناہ لینے والے لوگوں کا ایک سروے کیا کہ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں بنگلہ دیش میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق پانچ لاکھ چالیس ہزار لوگ کیمپوں میں تھے اور سب نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی نوکر شاہی نے ان محصورین کی پاکستان آمد پر کس کس طرح رکاوٹیں ڈالیں یہ ایک الگ داستان ہے۔ نتیجے کے طور پر تقریباً ڈھائی سے تین لاکھ افراد کیمپوں ہی میں پڑے رہ گئے۔ غیر انسانی زندگیوں کے باعث ہزاروں کی موت واقع ہوتی رہی۔ کچھ بھارت سے نیپال ہوتے ہوئے پاکستان پہنچے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے اس وقت کے جنرلز بھارت کی قید سے واپس آئے، تو انہوں نے پاکستان میں مکتی باہنیوں کے مظالم سے قوم کو آگاہ نہیں کیا۔ جن لوگوں نے کتابیں لکھیں وہ ذمّے داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے اور بعض بھٹو کو سزاوار قرار دیتے رہے۔ بعد میں بھی جب جب فوجی جنرلز برسراقتدار آئے، انہوں نے بھی ان محصور پاکستانیوں کا ذرا بھی خیال نہ کیا، جنہوں نے مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا اور ان کو کیمپوں میں محصور ہونا پڑا اور آج پچاس برسوں کے بعد بھی ناگفتہ بہ حالت میں پڑے ہیں۔ پاک فوج کے اکثر افسران آج بھی بقیدِ حیات ہیں۔ ان کو یاد ہونا چاہیے کہ جب علیحدگی پسند بنگالیوں نے ایک طرح سے فوج کو کنٹونمنٹ تک محدود کردیا تھا، ان کا پانی بھی بند کردیا تھا اور راشن کی سپلائی بھی بند کردی تھی، تو ان کو کھانا اور پانی بھی یہی بہاری پہنچاتے تھے۔ آرمی آپریشن کے دوران پاک فوج کے وہاں متعین افسران بہاری آبادیوں میں جاکر 18اور بیس برس کے نوجوانوں کو ایک ہفتے کی ٹریننگ دے کر بھارت کی سرحدوں پر بھیج دیتے تھے کہ بھارت کا مقابلہ کرو۔ آج وہ لوگ پچاس برسوں سے پاکستان آنے کے انتظار میں کیمپوں میں پڑے ہیں۔
دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ قومیں ملک چھوڑ دیتی ہیں، جیسا کہ بنگالیوں نے کیا اور کشمیری اب بھی چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور لوگوں کے ساتھ معاملہ الٹا ہے۔ انہوں نے ملک نہیں چھوڑا، ملک نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ میری کوشش ہے کہ میں پاکستانیوں کو بتائوں کہ 1971ء میں وہاں حقیقتاً کیا ہوا، جو نہ صرف دنیا سے بلکہ پاکستانیوں سے بھی چھپایا گیا۔