آج کل نیو ٹیلی ویژن پر پابندی عائد ہے، یعنی نیو ٹیلی ویژن اب کیبل پر نظر نہیں آتا. نیو ٹی-وی اور ملک بھر سے صحافی سراپا احتجاج ہیں. میڈیا مالکان کے اپنے اپنے مفادات ہیں لہٰذا کوئی میڈیا چینل اس پابندی کو کم ہی کوریج دینا پسند کرتا ہے.
میں صحافت کا ایک طالب علم ہوں جس نے اخباروں اور ٹی-وی پروگراموں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے کے بعد ایک نامور نیوز ویب سائٹ بھی جوائن کر رکھی ہے تا کہ ہر ممکن طریقے سے پاکستانی صحافت میں اپنا کردار ادا کرتا رہوں. مجھے یاد ہے کے جب میں نے صحافت کے مضامین میں داخلہ لینے کی ٹھانی تو اس وقت ملک کے سب سے مشہور صحافی کو کراچی میں گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد اسکی اچھی خاصی کھچائی کی جا رہی تھی یعنی اس ملک میں صحافیوں کے کیا حالات اور اوقات ہے، میں اس بات سے تو واقف تھا ہی
پاکستان وہ ملک ہے جہاں اکثر و بیشتر صحافیوں کے مرنے اور اغوا ہونے کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے UNESCO کے مطابق سنہ 2000 سے لیکر اب تک 109 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور حکومت پاکستان آج تک انھیں انصاف نہیں دلوا سکی.
29 نومبر کو حامد میر نے اپنے کالم میں ملک کے بڑے مگر گمنام صحافی مرزا شفیق صاحب کی موت کا ذکر کیا کے وہ اخبار کے دفتر سے نکل کر رکشے کی تلاش میں تھے کہ ایک نا معلوم موٹر سائیکل ان سے ٹکرائی اور وہ سرپر چوٹ لگنے کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کسی ٹی-وی پر خبر چلی اور نہ ہی کسی اخبار میں سرخی . پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں کارکن صحافی دن بھر محنت مزدوری کر کے محض روٹی کمانے کے قابل ہوتا ہے. پروموشن، انسینٹو. چھٹیاں، ادارے کی جانب سے سالانہ ٹور، میڈیکل سہولیات. یہ سب چیزیں کیا ہوتی ہیں کوئی کارکن صحافی بمشکل ہی جانتا ہوگا البتہ تنخواہوں میں تاخیر تو معمول کی بات ہے.
اگر اتنی توانائیاں کوئی شخص کسی اور کاروبار میں خرچ کرے تو مہینوں میں مالا مال ہو سکتا ہے .مگر صحافت کا بھی ایک 'کیڑا' ہے جو انہیں کچھ اور سوچنے سمجھنے نہیں دیتا اور یہ کاروان ہے کہ تھمنے کے بجائے مزید متحرک ہوتا چلا جا رہا ہے۔
کچھ دہائیاں قبل صحافت کی باقاعدہ ڈگری نہیں ہوا کرتی تھی مگر اب ماس کمیونیکیشن ایک وسیع تعلیمی میدان بن چکا ہے اور سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بی-ایس، ایم-ایس، ایم-فل اور پی-ایچ-ڈی میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جن کے حوصلے اس طرح کی پابندیوں، جبر اور ظلم سے ہر پل پست ہو رہے ہیں. تمام طالب علموں اور صحافی بننے کا خواب دیکھنے والوں کے بہالف پر میری حکومت وقت سے ایک درخواست ہے، اگر آپ نے اسی طرح ٹی-وی چینلز کو بند کرنا اور صحافیوں کو پابند سلاسل ہی کرنا ہے تو پہلے ان جامعات کو بند کریں جن میں لاکھوں کی تعداد میں صحافت کے طالب علم اس شعبے میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں. تا کہ نا رہے بانس اور نا بجے بانسری.