جسم کے پوشیدہ حصوں کو بالوں سے پاک کیوں رکھا گیا ؟ سائنسدانوں کی تحقیق نے ایسا فائدہ بتا دیاکہ آپ عش عش کر اٹھیں

08:18 AM, 5 Dec, 2016

سڈنی: اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کہا جاتا ہے، اور اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ محض کہنے کی بات نہیں بلکہ واقعی بہت بڑی حقیقت ہے۔ یہ دین فطرت جہاں ہمیں فکر و عرفان سے روشناس کرواتا ہے وہیں زندگی کے روزمرہ اعمال کی تربیت بھی دیتا ہے۔ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے لئے جسم کی دیگر صفائی کے علاوہ زیر ناف بالوں کی صفائی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ان بالوں کی صفائی سے غفلت برتنا مغربی معاشرے میں اس قدر عام پایا جاتا ہے کہ گویا اس کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ آسٹریلیا میں کی گئی ایک تحقیق میں اب اس ضمن میں کچھ ایسے انکشافات کردئیے گئے ہیں کہ اہل مغرب کو بھی زیر ناف بالوں کی صفائی کے متعلق مذہبی احکامات کی خوب سمجھ آنے لگی ہے۔

اخبار ”ڈیلی میل“کے مطابق یونیورسٹی آف سڈنی کے سائنسدان ڈاکٹر کیمرون ویب کا کہنا ہے کہ حالیہ تحقیقات میں پتہ چلا کہ مغربی ممالک میں بے شمار ایسے لوگ ہیں کہ جو زیر ناف بالوں میں جوﺅں اور پسوﺅں کے مرض میں مبتلاءہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ Tinder پر کئے گئے ایک سروے کے مطابق اس ایک ویب سائٹ کے ساڑھے سات لاکھ صارفین اس بیماری کے شکار ہیں۔ ڈاکٹر کیمرون کا کہنا ہے کہ یہ جوئیں اور پسو عام جوﺅں کی نسبت بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور عموماً اس بیماری میں مبتلا شخص کو ان کی موجودگی کا مکمل طور پر ادراک بھی نہیں ہوتا۔

بیماری کی صورت میں متاثرہ جگہ پر خارش محسوس ہوتی ہے، جبکہ اگر جلد کو بغور دیکھا جائے تو اس پر نیلے رنگ کے دھبے نظر آتے ہیں۔ اگر زیر جامے کو بغور دیکھا جائے تو اس پر خون کے ننھے نشانات نظر آسکتے ہیں، جبکہ زیر جامے میں سیاہ پاﺅڈر جیسی چیز بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر کیمرون نے مزید بتایا کہ زیر ناف بالوں میں پائی جانے والی ان جوﺅں کی جسامت محض ڈیڑھ ملی میٹر ہوتی ہے، اور ایک جوں ایک ماہ میں تقریباً 30 انڈے دیتی ہے۔ چونکہ متاثرہ حصوں کا درجہ حرارت قدرے زیادہ ہوتا ہے اور نم ماحول بھی دستیاب ہوتا ہے لہٰذا ان جوﺅں کی خوب پھیلاﺅ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کیمرون نے بتایا کہ اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے، اور وہ یہ کہ زیر ناف بالوں کی باقاعدگی سے صفائی کی جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جن لوگوں کے زیر ناف بالوں میں یہ جوئیں پیدا ہو جائیں، ان کی بغلوں، سینے اور حتیٰ کہ چہرے کے بال بھی ان سے محفوظ نہیں رہتے۔

مزیدخبریں