ال نینو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے خطرہ ، پاکستان چوتھا شدید خطرے کا شکار ملک

ال نینو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے خطرہ ، پاکستان چوتھا شدید خطرے کا شکار ملک
سورس: File


لندن: اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی انڈکس رپورٹ کے مطابق پاکستان اس سال ایل نینو کے اثرات کا چوتھا سب سے زیادہ خطرے کا شکار ملک ہے کیونکہ جنوبی ایشیائی قوم پہلے ہی ریکارڈ بلند افراط زر اور شدید مالی بحران کے درمیان گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب اور بے ترتیب بارشوں کے اثرات سے نبرد آزما ہے۔ 

یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس میں شدید موسم کے امکان سے غذائی مہنگائی اور غذائی عدم تحفظ میں مزید اضافہ ہو گا جب عوام پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹ رہے ہیں۔

  ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق، دنیا بھر کے ممالک گرمی کی لہروں اور سیلاب سے لڑ رہے ہیں، جو کہ قدرتی طور پر رونما ہونے والا موسمیاتی رجحان ہے، جس کے 2023 کے دوسرے نصف حصے میں برقرار رہنے کا 90 فیصد امکان ہے۔

اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ای ایس جی ریسرچ کے سربراہ یوجین کلرک نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سال ال نینو واقعہ سے سب سے زیادہ خطرہ ان ممالک  کو ہے جن کی اقتصادی بنیادیں نسبتاً کمزور ہیں اور جنہوں نے 2014-16 کے ال نینو دور میں نسبتاً کمزور زرعی پیداوار کا تجربہ کیا ہے۔

اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ایک انڈیکس کے مطابق، ہندوستان اور مصر ان معیشتوں میں شامل ہیں جو اس سال ایل نینو کے اثرات سے مجموعی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پاکستان کے علاوہ ، گھانا, کینیا اور فلپائن  جیسے ممالک بھی اس فہرست میں سر فہرست ہیں جبکہ جنوبی افریقہ اور چلی جیسے ممالک کم سے کم کمزور ہیں - ساتھ ہی بیشتر ترقی یافتہ ممالک  جیسے جرمنی یا ریاستہائے متحدہ  کی معیشتیں بھی ال نینو سے متاثر ہو رہی ہیں۔

بارش یا درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی فصلوں کو تباہ کر سکتی ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا میں معیشت اور روزگار کا ایک بڑا حصہ زراعت دیگر جگہوں کے مقابلے میں ہے، یہ علاقے خاص طور پر ال نینو کے نتیجے میں خطرے سے دوچار ہیں۔ جب زراعت پر انحصار کی بات آتی ہے تو پاکستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں اس شعبے کا  حجم بہت زیادہ ہے۔ چاول کی تقریباً 90 فیصد پیداوار ایشیا میں ہوتی ہے، اور خشک ایل نینو موسم کی وجہ سے چاول کی فصل کو انتہائی خطرہ ہے۔ 

 کیپٹل اکنامکس کی چیف گلوبل اکانومسٹ جینیفر میک کیون کی سربراہی میں ایک تحقیقی نوٹ کے مطابق،جن فصلوں کو برآمد کیا جا سکتا ہے ان کے حجم میں تیزی سے کمی کے نتیجے میں کچھ  ممالک کے لیے اپنی معیشتوں کے توازن کو  برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان، فلپائن اور تھائی لینڈ،  گھانا، بھارت اور تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

ایل نینو کے دوران درجہ حرارت میں ایک ڈگری کے اضافے نے تاریخی طور پر ایک سال بعد خوراک کی عالمی قیمتوں میں 6 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں شدید مہنگائی  میں براہ راست اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق، جنوبی افریقہ، وسطی امریکہ اور کیریبین اور ایشیا کے کچھ حصے پہلے سے ہی خوراک کے عدم تحفظ کی اعلی سطح کی وجہ سے "خاص تشویش" کا شکار ہیں۔ اب ایک مضبوط ال نینو ابھرتی ہوئی مارکیٹ  خوارک کی افراط زر کو 2024 میں دوہرے ہندسوں میں واپس دھکیل سکتا ہے۔

کیپٹل اکنامکس کے مطابق، بارش میں اہم تبدیلیاں، یا طویل خشک سالی، پن بجلی کی پیداوار کو بھی متاثر کر سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں گیس اور کوئلے کی قیمتوں کو بڑھا سکتی ہے۔ توانائی کے مجموعی مکس میں ہائیڈرو پاور کے حصہ کے حوالے سے پاکستان کمزور ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ 

  زرعی پیداوار اور بجلی پیداوار پر ال نینو کے  اثر سے عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے ، اور طویل عرصے تک مہنگائی کی شرح میں شدید اضافہ ہو گا۔

مصنف کے بارے میں