بھارت نے 5 اگست2019ء کو کشمیر کو پہلے سے حاصل جیسی تیسی آزادیوں کو مٹھی میں بھینچ کر رکھنے کے بعد اب انہی چھینی ہوئی آزادیوں کو مرحلہ وار واپس لوٹانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ یہ آزادیاں کیوں چھینی گئی تھیں اور اب انہیں قسطوں میں لوٹانے کے پیچھے کیا ہے؟ اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے۔ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد عالمِ خوف میں بھارت نے کشمیر کے آزاد منش دانشوروں، حق گو اسکالروں، قدآور وکلا اور آزادی پسند سیاسی کارکنوں کو تو گرفتار کیا ہی تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے وفاداری کا دَم بھرنے والی سیاسی قیادت کو بھی نظربند کردیا تھا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بھارت کے دھارے میں سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت کو رہائی ملتی چلی گئی، جس کی مثال فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی رہائی ہے۔ آزادی پسند راہنما میرواعظ عمر فاروق کی نظر بندی ختم کی جا چکی ہے،اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا حامی ہندو شدت پسندوں کا مخصوص گروہ ہی رہا ہے ۔ بھارت کے اس اقدام سے کشمیریوں کی جدوجہد پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوئے بلکہ اس سے کشمیری مزید مشتعل ہوئے۔ انہوں نے جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارتی فورسز کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ وادی کے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے بھی یہ صورتحال ناقابل برداشت تھی۔ بحیثیت مسلمان دیکھا جائے تو بھارت کے ایسے ہتھکنڈے پاکستان کو کشمیریوں کی اخلاقی مدد سے آگے سوچنے پر مجبور کررہے تھے اور پاکستان نے اپنی مقدور بھر کوششیں کیں جن کی بدولت مسئلہ کشمیر کا یہ نیا روپ دنیا کے سامنے آشکار ہوا۔سلامتی کونسل کے اجلاس سے لے کر تمام بین الاقوامی فورمز تک ہر جگہ بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی گئی۔ خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارت مقبوضہ کشمیر کے حالات کو جس نہج پر لے گیاتھا اور سازش کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے توازن کو بگاڑنے کیلئے کوشاں تھا وہ کشمیریوں اور پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ تھا ۔ کیونکہ یہ اٹل حقیقت تھی کہ کشمیر کے باہر سے شدت پسند ہندوؤں کو وہاں لا کر بسانے سے چند سال میں آبادی کا تناسب بری طرح بگڑ سکتا تھا اور مسلمان اکثریت اقلیت میں بدل جانے کا اندیشہ تھا۔ بھارت اب بھی اس توازن کو بگاڑنے کے مزید مذموم حربے اور ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے تاآنکہ وہ خود عالمی برادری کو اس وقت استصواب کی پیشکش نہ کر دے جب اسے یقین ہو جائے کہ اکثریتی ’’مصنوعی آبادی‘‘ بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت کریگی۔کشمیر کے معاملے میں ہماری سفارت کاری میں بھی فعالیت نظر آرہی ہے پاکستان نے بھارت کی جنونیت سے او آئی سی کو آگاہ کیا۔ او آئی سی سیکرٹری جنرل نے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے عالمی برادری پر مسئلہ کشمیر کے حل کی ذمہ داری نبھانے پر زور دیا۔ او آئی سی اپنے طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ یہ 57 مسلم ممالک کا اتحاد ہے جن میں سے بہت سے طاقتور ممالک کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ وہ ان تعلقات کو دوٹوک انداز میں استعمال کرتے ہوئے بھارت کے سامنے اِدھر یا اْدھر کا آپشن رکھ سکتے ہیں۔
مودی سرکار نے ممکنہ عوامی ردعمل کے نتیجے میں مقبوضہ وادی میں عملاً کرفیو کی صورت حال پیدا کردی تھی جودو سال گزرنے کے بعد آج تک قائم ہے۔ جہاں باہمی سوشل رابطے ختم کرنے کیلئے انٹرنیٹ اور ٹیلی فونک سروس بھی بند کر دی گئی اور سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں بھی چھٹیاں کر دی گئیں اورپھر کشمیری حریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج اور پیراملٹری سکیورٹی فورسز کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اسکے باوجود حریت پسندوں کے جذبے کے آگے بند نہیں باندھا جا سکا ۔ پاکستان نے اس بھارتی اقدام کیخلاف یواین سیکرٹری جنرل کو پاکستان کی جانب سے مراسلہ بھی بھجوایا جس پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس ہوا تھا پاکستان نے یواین سیکرٹری جنرل سے اس امر کا تقاضا کیا کہ بھارت کو ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے روکا جائے اور فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے جو کشمیر کے حالات و واقعات کا جائزہ لے پاکستان کی جانب سے بھارتی اقدامات پر احتجاج کیا کہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں کی مخالفت کی جائیگی۔ مراسلہ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مودی سرکار کے غیرقانونی اقدامات واپس لینے کا بھی تقاضا کیا گیا تھا۔ اسی طرح آزاد کشمیرکے عوام نے بھی بھارتی اقدام پر سخت ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بھارت چاہے جتنی فوج مقبوضہ کشمیر میں داخل کردے‘
کشمیری اپنے استصواب کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے بھارت کی طرف سے جموں وکشمیر کی یونین ٹیریٹری کی حیثیت ختم کرکے ریاست کے طور پر بحالی کا عندیہ بھی دیا جانے لگا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو کسی نئے انداز سے نافذ کرنے کے اشارے بھی ملنے لگے ہیں، کشمیری رہنمائوں کی طویل ہوتی نظربندی بتا رہی ہے کہ بھارت پریشان ہے کہ پانچ اگست کا اقدام کشمیری لوگوں کے لیے قطعی ناقابلِ قبول ہے اور ریاست کی خصوصی حیثیت بحال کیے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے، اور وہ اس کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کے روایتی اور مشہور سیاسی خاندان بھارت کے منصوبے کا ساتھ نہیں دے رہے سیاست کی نئی پنیری لگانے کیلئے طویل ماہ وسال اور محنت اور وسائل درکار ہوں گے جس کے لیے اب ماحول سازگار نہیں رہا۔ اس صورتِ حال میں اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کی طرح کا کوئی قانون دوبارہ متعارف کیا جاتا ہے تو پھر پانچ اگست کا فیصلہ بھارت کے لیے سرے سے ’’گناہ ِبے لذت‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں، امن کا جو حال ایک سال میں کشمیر میں ہوا اُس کی کہانی خود بھارتی ایجنسیوں کی فراہم کردہ تفصیلات فراہم کررہی ہیں، جن کے مطابق گزشتہ برس اگست سے موجودہ اگست تک 73 عام شہری، 200 عسکریت پسند، 80 فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں سمیت ساڑھے تین سو سے زائد افراد مارے گئے۔ جبکہ خود انہی کی رپورٹوں کے مطابق کشمیر میں عسکریت پسندوں کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں، اور یہ تعداد بھی ایک سال سے بیان کی جارہی ہے۔ اب اگر ایک سال میں بیان کردہ دو سو عسکریت پسند مارے گئے تو پھر وادی ملیٹنسی فری ہوگئی ہے، اور اگر واقعی ایسا ہے تو رواں سال پانچ اگست کے بعد سے سیکورٹی فورسز پر گھات لگا کر جو حملے ہوئے ہیں وہ کسی مافوق الفطرت مخلوق کا کام ہے؟ جو حریت پسند شہید ہوئے وہ آسمان سے ٹپکے یا زمین سے اُگے؟ اس کا مطلب ہے کہ بھارتی فورسز دو سال میں امن قائم کرنے کے دعوے میں ناکام ہوئیں۔مودی نے ٹرمپ کو پانچ اگست کے ممکنہ فیصلے اور اس فیصلے کے اثرات کو کنٹرول کرنے کی درخواست کررکھی تھی امریکہ نے عرب ملکوں کے ذریعے پاکستان کو صبر کا کڑوا گھونٹ پینے اور اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کی تلقین کی کوششیں کیں، مگر پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے کے اعلان سے انحراف نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے بھارت کی پس قدمیوں کا یہ’’مطلب‘‘ تو بہت واضح ہے کوئی اسے لفظوں میں بیان کرے یا نہ کرے۔