قومی سیاست اتنی بری طرح گروہ بندی یا Polarization کا شکار ہے کہ تجزیہ نگار جن کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ غیر جانبدار مؤقف پیش کریں وہ بھی اچھے خاصے پارٹی باز ہو چکے ہیں جب ایک مبصر ہر معاملے میں ایک مخصوص پارٹی کی اندھا دھند حمایت کرتا ہو اور دوسری پارٹی کی اچھی بات کی بھی مخالفت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی پسندیدہ پارٹی کا پراپیگنڈا دفتر سنبھال لے مگر افسوس ہے کہ ملک کے چوٹی کے تجزیہ نگاروں نے مستقل بنیادوں پر اپنی پسندیدہ پارٹی کا مورچہ سنبھال رکھا ہے جس پر کسی کو اعتراض ہے اور نہ ہی ان کی خود ساختہ غیر جانبداری مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہمارے جیسے تجزیہ نگاروں کو دوہری مشکل کا سامنا ہے۔ ن لیگ والے ہمیں پی ٹی آئی کا بندہ سمجھتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے نزدیک ہم ن لیگ کے خیر خواہ ہیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارا دونوں سے کوئی تعلق نہیں البتہ دونوں پارٹیوں کی غلط حرکتوں کو منظر عام پر لانا ہمارا ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب ہم آئندہ بھی کرتے رہیں گے بقول فیض:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
گزشتہ ہفتے میاں نواز شریف نے لندن میں پاکستان دشمنی کے ایک بدنام کیریکٹر افغان نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب اور افغان نائب صدر امراللہ صالح سے خیر سگالی ملاقات کی۔ اس پر بات کرنے سے پہلے تاریخ سے ایک حوالہ دنیا ضروری ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب فلسطین میں انتفاضہ تحریک شروع ہوئی تو مسلمانوں پر یہودی مظالم کی وجہ سے اسرائیل میں رہنے والے عیسائی مذہب کے لوگوں کی کافی تعداد تھی جواب بھی ہے یہ لوگ حکمران یہودی عناصر کے ساتھ ملنے کے بجائے مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور اقلیت کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔ فلسطینی مسلمانوں اور فلسطینی عیسائیوں کا اتحاد توڑنے کے لیے یہودی حکومت نے عیسائی چرچ کے سب سے بڑے پوپ کے لیے قومی اعزاز کا اعلان کر دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں پھوٹ ڈالی جا سکے مگر کرسچین پوپ نے وہ ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اپنے اقلیتی ساتھیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اپنے ہی ملک میں غدار نہیں کہلانا چاہتا۔
حمد اللہ محب سے پاکستان کو مسئلہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان کو ہیرا منڈی کہہ دیا اور یہ بات اس نے ایک جلسۂ عام میں کہی اور آج تک اس پر معذرت نہیں کی جس کی وجہ سے پاکستان نے سرکاری و سفارتی سطح پر اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ میاں نواز شریف جو 3 دفعہ پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں اور ان کی پارٹی چوتھی دفعہ بھی پاکستان میں اقتدار میں آنے کے امکانات رکھتی ہے۔ انہوں نے ایک بدنام زمانہ پاکستان دشمن کے ساتھ اس طرح کی ملاقات کیوں کی اور اس بارے میں ان کا بیان معذرت خواہانہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ میاں صاحب کے محب وطن پارٹی ورکرز کو اس پر رنج ہوا ہے لیکن پارٹی کے احساسات اندر ہی اندر دبا دیئے گئے ہیں۔ سیاسی طور پر بھی سوچا جائے تو اس ملاقات سے نواز شریف اور اس کی پارٹی کو کیا کوئی فائدہ ہوا۔
اس ملاقات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں حمد اللہ محب نے میاں نواز شریف سے ایک اور ہاتھ کر دیا۔ یہ ملاقات خفیہ تو نہیں تھی البتہ ن لیگ نے اس کو میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔ 4 دن گزرنے کے بعد حمد اللہ محب نے ملاقات کے بارے میں خبر اور تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی تو پی ٹی آئی حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس سے دو دن بعد آزاد جموں کشمیر میں الیکشن تھے اس خبر کو حکومتی ذرائع نے خوب اچھالا۔ حکومت یہاں تک کہتی ہے ن لیگ آزاد کشمیر میں الیکشن ہارنے کی وجہ یہ ملاقات تھی جبکہ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی امیدواروں نے 22,22 کروڑ روپے دے کر ٹکٹ حاصل کیے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امید وار رشید ترابی کا حکومتی امیدوار کے مقابلے میں دستبردار ہونا ایک الگ داستان ہے جن پر انہیں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے۔
پی ٹی آئی کے سٹار کھلاڑی راجہ تنویر الیاس جو centaurus اسلام آباد کے مالک ہیں ان کا نام بطور وزیراعظم الیکشن کے نتائج سے پہلے ہی لیک ہو چکا تھا۔ پرانے زمانے میں جب جنرل مشرف نے میر ظفر اللہ جمالی کو ہٹا کر ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا تو اس بات کا انتظار نہ کیا کہ پہلے انہیں قومی اسمبلی کا ممبر بنایا جائے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے دو ماہ بعد اٹک سے ضمنی الیکشن جیت کر آئینی خانہ پری مکمل کر دی تو اپوزیشن کا سوال یہ تھا کہ حکومت کو کیسے پتہ تھا کہ شوکت عزیز ضمنی الیکشن جیت جائیں گے ۔ تنویر الیاس کا معاملہ بھی وہی تھا کہ حکومت نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اسے ہارنے نہیں دینا۔ رشید ترابی کی دست برداری اور سراج الحق کے بیان کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو آپ کو آزاد کشمیر الیکشن کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
حکومت کے طرز حکمرانی کے بارے میں ایک اور دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے۔ 2015ء میں جب ن لیگ حکومت نے قطر سے LNG گیس کا معاہدہ کیا تو اس کا ریٹ 8 ڈالر فی MMBTU تھا جس پر اس وقت کی اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی نے الزام لگایا کہ اس سودے میں کمیشن کے ذریعے وسیع ہال بنایا گیا ہے۔ 2020ء میں LNG کی قیمت جب 10 ڈالر ہو گئی تو وزیراعظم عمران خان کے مشیران کرام نے مشورہ دیا کہ عالمی منڈی میں گیس کی قیمتیں کم ہونے کا انتظار کیا جائے ان کی یہ بات مان لی گئی۔ 2021ء میں LNG کی قیمت 10 ڈالر سے کم ہونے کے بجائے اس وقت 15.50ڈالر ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے Bloomberg کی ہوش ربارپورٹ ہے کہ پاکستان تاریخ کی مہنگی ترین LNG خریدنے جا رہا ہے کیونکہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 8 ڈالر والے ریٹ پر کمیشن کے شور کی شدت میں کمی آ گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے ایک ماہ کے عرصے میں پٹرول قیمتوں میں 3 بار اضافہ کیا ہے جو 10 روپے بنتا ہے جس سے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔ حکومت نہایت ڈھٹائی سے کہتی ہے کہ تیل کی قیمتیں دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں اب بھی کم ہیں یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ پاکستان کی قیمت کا اگر آپ نے امریکہ سے موازنہ کرنا ہے تو آمدنی کا موازنہ بھی کریں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اوسط پاکستانی کی ایک دن کی اجرت سے 6 لیٹر پٹرول خریدا جا سکتا ہے جبکہ امریکہ میں جہاں فی گھنٹہ اجرت 10 ڈالر سے بھی زیادہ ہے وہاں ایک دن کی مزدوری سے 50 لیٹر پٹرول با آسانی خریدا جا سکتا ہے۔ اب بتائیں کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت امریکہ سے کم ہے یا زیادہ۔ آج حکومت نے ایک اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئی منطق دی ہے وہ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں تیل کی یومیہ فروخت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ شاید اب اس کو جواز بنا کر قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
ہمارے آج کے اس کالم سے آپ ہماری سیاسی وابستگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس کے ساتھ ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے دوست ہمیں کسی نہ کسی پارٹی میں دھکیلنے پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہیں۔