اسلام آباد :صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز سے میری اپیل ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پریس کے لئے راستہ کھولیں،پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بھارت نے جنیوا کنو نشن اور اقوام متحدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو تبدیلیاں کی ہیں۔
ان کو واپس لیا جائے، اقوام متحدہ اپنے وعدوں پر پورا اترے، دنیا کی اقوام سے میری اپیل ہے کہ دیکھو کتنا ظلم ہو رہا ہے ، اوآئی سی سے میری اپیل ہے کہ اس بات کو سمجھیں اور کشمیریوں کا ساتھ دیں۔ ہم تنازعے کے حل کے لیے پر امن کوشش کرتے رہیں گے مگر میرے کشمیریوں کا صبر اور بھارت کے مسلمانوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب ہے، بھارت اس معاملہ کو پہچانے۔
کشمیری اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھیں ہم اس کے سفیر ہیں، ہم ان کی آزادی کی جدوجہد چلاتے رہیں گے اور کشمیرآزاد کر کے رہیں گے۔۔ان خیالات کاا ظہار ڈاکٹر عارف علوی نے بھارتی غیرقانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے فوجی محاصرے کا ایک سال مکمل ہونے پر یوم استحصال کے موقع پر شاہراہ دستور پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی ، چیئرمین سینیٹ میر محمد صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات سینیٹر سید شبلی فراز، وفاقی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور، سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
صدر نے کہا کہ بھارت کے اکابرین نے کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ وعدے کیئے تھے تاہم کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ بھارت نے آرٹیکل 370کو بھی بدلااورآرٹیکل 35اے کو بھی بدلا اور اگر ایک سال کے اندر کشمیریوں کو یہ بات پسند آجاتی تو آج بھارت کو کشمیر کے اندر کرفیو نہیں لگانا پڑتا، کرفیو لگانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت کے یہ سارے اقدامات باالکل غلط اور غیر قانونی ہیں اور کشمیر بھارت کے ساتھ ایک قدم چلنے کو تیار نہیں ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اس دھرتی پر بھی آج یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے، اس میںنیت یہ ہے کہ دنیا کو اس بات احساس ہو کہ کشمیر اور کشمیری لوگوں کے ساتھ جو مظالم بھارت کی ہندوتوا حکومت نے ڈھائے ہیں اور گزشتہ ایک سال سے بالخصوص جو لاک ڈائون کیا ہوا ہے ، دنیا کے اندر لاک ڈائون ہوا مگر یہ ایک انوکھا لاک ڈائون ہے جس میں اظہار کی بندش بھی ہے ، جس میں ہسپتال میں نہ جانے کی بندش بھی ہے، لوگوں کے کاروبارکی بندشیں بھی رہی ہیں۔
دنیا کے تخمینے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو چار ارب ڈالرز کا نقصا ن ہوا ہے، یہ نقصان بھارت کا نہیں ہوابلکہ اس عوام کا ہوا ہے جو جدوجہد کی کوشش کے اندر اور جہاد کے ا ندر مسلسل لگے ہوئے ہیں۔، ڈوگرا راج کے خلاف انہوں نے جہاد کیا۔اس کے بعد بھارت نے وعدے کیئے اور بھارت اس کے بعد اقوام متحدہ میں گیا ، ایک نئی نویلی اقوام متحدہ سے پاکستان کو بھی امید رہی ہے کہ وہاں سے کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا، بھارت کے اکابرین نے کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ وعدے کیئے تاہم کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ شملہ معاہدہ کیا گیا جس کے اندر کے یہ کہا کہ دو طرفہ مذاکرات کریں گے اور 1973کے شملہ معاہدہ کے بعد بھارت کبھی کشمیر پر مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوا، جب بھی کثیر الجتی فورمز پر یہ بات کی گئی تو بھارت نے ہیلے بہانے کیئے کہ یہ تو دو طرفہ معاملہ ہے ہمارا معاہدہ ہے کہ ہم آپس میں بات چیت کریں گے مگر بات چیت کرنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے اسرائیل سے سیکھا ہے کہ وہاں کی ڈیمو گرافی کو کیسے بدلہ جائے۔ ، انہوں نے اسرائیل سے سیکھا کہ وہ مغربی کنارے پر جس طرح ڈیموگرافی بدل رہے ہیں ، جس طرح وہ ان لوگوں کو وہاں آباد کررہے ہیں جو وہاں نہیں تھے اور فلسطینیوں کو نکال رہے ہیں۔
انہوں نے اسرائیل سے وہ سیکھا ہے۔ اسرائیل سے ظلم کرنے کی ٹیکنالوجی لی ہے، پیپلٹ گنز کا استعمال اسرائیل سے لیا ہے۔ جب یہ پہلی بار استعمال ہوئے تھے تو میں بار، بار کہتا تھا کہ بھارت کسی اور خطہ میں اس کو استعمال نہیں کرے گا اور اس نے ثابت کیا کہ اس نے صرف کشمیری مسلمانوں کے خلاف پیلٹ گنز کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جب آئی اور اس سے پہلے بھی بھارت کو صرف امن کا پیغام دیا گیا، اس کے بعد پلوامہ کے غلط اور جھوٹ ردعمل میں انہوں نے پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے پھر بھی امن کا راستہ چنا اور ابی نندن کو واپس کیا اور ایسا بھارت اور دنیا کو دکھانے کے لئے کیا کہ ہم صرف امن چاہتے ہیں اور ہم جنگ نہیں چاہتے۔ مگر میں یہ کہتا ہوںکہ کب تک، گزشتہ70یا72سال سے اور اس سے پہلے ڈوگراراج سے کشمیریوں پر ظلم ہوتا آیا ہے ، نو لاکھ بھارتی فوج وہاں موجود ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پانچ اگست کو کشمیریوں کے لئے جو تبدیلی وہ اپنے آئین کے آرٹیکل 370میں لے کر آئے ، وہ آئین کے اندر370بھی غلط تھا، پاکستان کو وہ بھی منظور نہیں تھا کیونکہ ہم تو کشمیریوں کی آزادی چاہتے ہیں، کشمیر بھارت کا حصہ ہی نہیں ہے۔
بھارت نے آرٹیکل 370کو بھی بدلااورآرٹیکل 35اے کو بھی بدلا اور اگر ایک سال کے اندر کشمیریوں کو یہ بات پسند آجاتی تو آج بھارت کو کشمیر کے اندر کرفیو نہیں لگانا پڑتا، کرفیو لگانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت کے یہ سارے اقدامات باالکل غلط اور غیر قانونی ہیں اورکشمیر بھارت کے ساتھ ایک قدم چلنے کو تیار نہیں ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں کا جو محاصرہ کیا ہوا ہے اور جس انداز سے عورتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور کبھی ، کبھی ایسی تصویریں نکل آتی ہیں ایک نانا کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور اس کے سینے پر اس کے نواسے کو بٹھا کر اور شہید کی نعش پر پائوں رکھ کر تصویر یں لی گئیں۔ یہ کتنے ظلم کی بات ہے، یہ تصویریں وہاں سے نکلتی رہیں گی اور ہم دنیا کو دکھاتے رہیں گے کہ کتنا ظلم ہے۔
میں اقوام متحدہ سے اپیل کرتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں پریس کو اجازت دے، اگر حالات پر امن ہیں تو پریس کو آزادی ہونی چاہئے ، آزاد جموں و کشمیر کے اندر پریس کی مکمل آزادی ہے، کبھی بھی جا سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ لاک ڈائون ہے ۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز سے میری اپیل ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پریس کے لئے راستہ کھولیں،پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بھارت جو تبدیلیاں جنیوا کنوینشن اور اقوام متحدہ کی خلاف ورزی میں لائے ہیں ان کو واپس لیا جائے، اقوام متحدہ اپنے وعدوں پر پورا اترے، دنیا کی اقوام سے میری اپیل ہے کہ دیکھو کتنا ظلم ہو رہا ہے ، اوآئی سی سے میری اپیل ہے کہ اس بات کو سمجھیں اور کشمیریوں کا ساتھ دیں۔
میں سمجھتاہ ہوں کہ کشمیر کے معاملہ پرساری قوم متحد ،آج یہاں اپوزیشن اور حکومت کے سب سینیٹرز اکٹھے ہیںاور ہم اکٹھا رہیں گے ۔ کشمیر کے لوگوں اور ساتھیوں کو میں کہنا چاہتا ہوں ہیں کہ بڑا جہاد کیا ، بڑی محنت کی، اقلیتیں بھی یہاں موجود ہیں۔ ہم پر امن کوشش کرتے رہیں گے مگر میرے کشمیریوں کا صبر اور بھارت کے مسلمانوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب ہے، بھارت اس معاملہ کو پہچانے۔ کشمیری اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھیں ہم اس کے سفیر ہیں، ہم اس کی آزادی کی جدوجہد چلاتے رہیں گے اور آزاد کر کے رہیں گے۔