سب سے بڑے مجرم یقینی طور پر پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں کیوں کہ جن کا علم سے تعلق نہیں ہوتا وہ تو اپنے بچائو کے لیے ہر جائز ناجائز راستہ نکالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ میاں جاوید احمد ، نیب کی حراست میں ان کا انتقال ہو گیا۔ شاید یہ عام سی خبر رہتی ۔ لیکن مرنے کے بعد بھی ان کی ہتھکڑی نہ کھل سکی۔ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کی ہتھکڑی لگی میت پہ کچھ دوست تب بھی یہ کہتے نظر آئے کہ یہ کون سا باقاعدہ استاد تھے یہ تو اس کاروبار سے وابستہ سی ای او درجے کے شخص تھے۔
وہ کون تھے، کیا تھے، یہ بحث مقصودنہیں۔ ہاں مگر عرض اس وقت بھی یہ تھی کہ اگر ان کو ہتھکڑی نہ لگائی جاتی تو کیا وہ بھاگ جاتے ۔ ایک پڑھا لکھا شخص کیا اس قدر سخت پہرے میں بھی بھاگنے کی سکت رکھتا ہے کہ وہ نو دو گیارہ ہو جائے؟ یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ علم قانون کا خوف بھی پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسی طرح پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کو جب گرفت میں لیا گیا تو صاحبان عقل یہ دیکھ کے دنگ رہ گئے کہ چالیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہنے والا شخص،کیرئیر میں کئی شعبوں کاسربراہ رہنے والا شخص اتنا خطرناک ہو گیا کہ اس کو ہتھکڑیوں سمیت عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور بات جب سوشل میڈیا کی زینت بنی تو تب سب پہ اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ یہ تو غلط ہو گیا اور الٹا معاملات گلے پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ تب اِدھر اُدھر سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اور نوٹسز بھی لیے جانے لگے۔ لیکن ہم نے دکھایا کہ ہم بطور مجموعی ایک ایسی قوم بنتے جا رہے ہیں جہاں جانے والے دھڑلے سے چلے جاتے ہیں اور قانون کا احترام کرنے والے ذلیل و رسوا ہوتے رہتے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ اس حوالے سے نہ تو کوئی ایک سیاسی پارٹی قصور وار ہے، نہ ایک مخصوص حکومت ، نہ ہی کوئی مخصوص شخصیت، بلکہ یہ تو ہمارے مجموعی رویے بن چکے ہیں
تاریخی طو رپہ آج کی نسل چوہدری ظہور الہی (مرحوم) پہ بننے والے بھینس چوری کے مقدمے سے بے خبر ہے اور نہ اس واقعے کی مکمل تفصیلات نئی نسل کو معلوم ہیں۔ لیکن 78سالہ عرفان صدیقی کی ہتھکڑی لگی تصاویر دیکھنے کے بعد یقینی طور پر نوجوان نسل ایک نئے قسم کے مقدمے سے روشناس ہوئی ہے جو تاریخ میں اپنا مقام بنائے گا اور بھینس چوری کے مقدمے سے ناواقفیت کا کسی حد تک ازالہ ضرور کر دے گا۔ ایک اُستاد، ایک شاعر، ایک صحافی، ایک کالم نگار، ایک مصنف کو جب ہتھکڑی لگے ہاتھوں میں قلم بلند کرتے دیکھا تو اس حقیقت پہ یقین مزید پختہ ہو گیا کہ ایک صحافی کے لیے قلم ہی اس کا ہتھیار بھی ہے۔ جس سے وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف کلمہء حق کہتا ہے۔ اور قلم کی طاقت سے انکار اس لیے ممکن نہیں کہ چھٹی والے دن عدالتیں کھلوا دیتا ہے یہ قلم ۔
اکثر ہم پاکستانی بڑے شوق سے اشفاق احمد (مرحوم) کواٹلی میں پیش آیا واقعہ بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ چالان وقت گزرنے کے بعد عدالت جانا ہوا اور جب جج کو پتا چلا کہ وہ استاد ہیں تو نہ صرف چالان کینسل کر دیا بلکہ احترام میں پوری عدالت کھڑی ہو گئی۔ تو عرض اتنی سی ہے کہ یہ اپنے عرفان صدیقی صاحب بھی بہت سینئر استاد ہیں۔ اِن جیسے لوگ کسی مہذب معاشرے میں آج بھی جائیں تو وہ اِن کا اسی طرح احترام کریں گے۔ اور جس کے شاگردوں میں جرنیلوں سے لے کر چوٹی کے سیاستدان تک شامل ہوں اس کا جرم یا قصور ہوبھی تو ان سے ویسا سلوک نہیں کریں گے جیسا ہم نے ان کے ساتھ کیا۔ مکان بیٹے کا، معائدہ کرنے والا بیٹا تو کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ اگر نئے پاکستان میں بھی باپ کے جرم پہ بیٹے کو اُٹھایا جائے گا، بیٹے کی جگہ باپ کو اُٹھایا جائے گا تو سرکار کون سا نیا پاکستان آپ نے بنایا ہے؟
عرفان صدیقی صاحب کے نظریات سے راقم سمیت کسی کو بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔ اور کرنا بھی چاہیے۔ لیکن رات گئے پوری پولیس فورس کی سائرن بجاتی گاڑیوں کے ساتھ ان کے ہاتھ پہ ہتھکڑی لگا کے پکڑ میں لے آنا، اور ظاہر کرنا کہ جیسے بہت بڑا مجرم پکڑ لیا ہے، اخلاقیات کے کسی قاعدے میں درست نہیں تھا۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ بات پھیلی تو ارباب اختیار کو ہوش آیا۔ اسپیکر صاحب کو بھی بیان دینا پڑا، مشیرِ خاص کو بھی یاد آیا کہ مذمت کرنی ہے۔ سوالات اُٹھیں گے کہ جب ایک اٹھہتر سالہ بزرگ کو ہتھکڑی لگا کے پابند سلاسل کیا جا رہا تھا، جب میڈیا پہ خبر بھی آئی، جب ایک قابل ضمانت جرم پہ ضمانت کے بجائے جیل یاترا کروا دی گئی، اور فوری ضمانت سننے کے بجائے سوموار کا وقت مقرر کر دیا گیا ، تو اس وقت صاحبانِ اقتدار کہاں تھے۔ چھٹی والے دن عدالت کھل جاتی ہے، اگر مرضی ہو۔ ضمانت بھی ہو جاتی ہے، اگر من چاہے۔ لیکن ہمارا من اور مرضی کبھی نہیں چاہتے کہ ہم حقیقی معنوں میں اس ملک کا نظام بہتر کرنے کی طرف توجہ دیں۔
ہم ایسا قانون بنانے کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتے کہ عمر کی ایک حد مقرر کیجیے کہ اس عمر سے آگے مجرم کوئی بھی ہو، اسے ہتھکڑی نہیں لگائی جائے گی۔ ہم ایسی قانون سازی کیوں نہیں کر پاتے کہ معاشرے کی تشکیل کرنے والے افراد صرف نظریاتی اختلاف کی وجہ سے بے عزت نہ کیے جائیں۔سوچ پہ تو کسی کا پہرہ نہیں۔ ہم مختلف سوچ کو بھلا قید کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو بھی ہتھکڑی نہ لگانے کا قانون کیوں نہیں بنا سکتے جو عمر کے ایسے حصے میں ہوں، یا جسمانی طور پر ایسی حالت میں ہوں کہ بھاگنے کی سکت ہی نہ رکھتے ہوں۔ہمیں کچھ ایسے فیصلے کرنا ہوں گے کہ جس سے ہو سکتا ہے ہمارے مخالفین کو بھی فائدہ پہنچتا نظر آئے لیکن ایسا کرنے سے معاشرے میں مثبت رویے جنم لیں گے۔اور معاشرہ تعمیری سفر شروع کر ئے گا۔
یہ"زُبانِ اہلِ زمیں "ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں۔
سید شاہد عباس
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)