دفتر خارجہ کے ترجمان نے واضح الفاظ میں اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی تجارت کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان کی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی آئی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تجارت محض پروپیگنڈہ ہے۔ امریکن جیوٹش کانگریس کی پریس ریلیز کو غلط طریقے سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس میں بھی پاکستان اسرائیل تجارت کا ذکر نہیں ہے۔ اتنی کھلی اور واضح وضاحت کے بعد اس موضوع پر کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کسٹمز نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اسرائیل کو کوئی کھیپ برآمد نہیں کی گئی ہے، کسی تیسرے ملک سے پاکستانی سامان برآمد ہوا ہے تو اسے پاکستانی برآمدات نہیں کہا جا سکتا ہے۔ وزارت تجارت نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ اس حوالے سے کیا جانے والا پراپیگنڈہ درست نہیں ہے۔
ویسے اسرائیل کے قیام کے بارے میں ہماری پالیسی بڑی واضح ہے۔ خالق پاکستان کے فلسطینیوں کے ارض وطن کے بارے میں پالیسی بیان کی روشنی میں اسرائیل کو ہم نے کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کے بارے میں لکھا گیا انتباہ پاکستان کی قومی پالیسی کا عکاس ہے۔ لکھا گیا ہے کہ ”یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا میں ہر جگہ جانے کے لئے کارآمد ہے“ پاکستانی حکومت اس پر قائم ہے اس لئے اسرائیل کے ساتھ تجارت وغیرہ کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز درست نظر نہیں آتا ہے۔
اسرائیل کے حوالے سے قومی پالیسی بیان کرنے کے بعد ذرا اسی موضوع پر دوسرے پہلو سے بات کرتے ہیں۔ بھارت کو ہم نے اپنا ازلی دشمن قرار دے رکھا ہے قیام پاکستان کے روزِ اوّل سے ہی پاک بھارت تعلقات نے کچھ ایسی ڈائریکشن اختیار کر لی تھی کہ دونوں مملکتوں کے درمیان دشمنی کی ابتدا ہو گئی۔ یہ دشمنی اچانک پیدا نہیں ہوئی تھی اس کی طویل تاریخی وجوہات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہاں خطے میں پہلا مسلمان وارد ہوا یا اس نے دین اسلام قبول کیا اس دشمنی کی ابتدا اسی دن سے ہو گئی تھی لیکن یہ بات بہت قرین قیاس نظر نہیں آتی ہے۔ انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل جل کر لڑی تھی یہ الگ بات ہے کہ انگریزوں نے یہاں برصغیر پاک و ہند میں اپنی حکومت کو مؤثر اور مضبوط کرنے کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے مذہبی، فکری، تہذیبی اور سماجی اختلافات کو ہوا دی اور انہیں دو متحارب اقوام کے طور پر کھڑا کر دیا۔ پھر یہی اختلافات بڑھتے بڑھتے تقسیم ہند کے وقت
کھلی دشمنی کی صورت میں سامنے آ گئے۔ مسئلہ کشمیر اسی مخاصمت کا شاخسانہ ہے سقوط ڈھاکہ بھی اسی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ گزرے 75 سال کے دوران ہونے والی تین/ چار جنگیں بھی اسی دشمنی کا نتیجہ ہیں۔ ہم بھارت کو اگر ازلی و ابدی دشمن سمجھتے ہیں تو اس کی حقیقی وجوہات ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس دشمنی کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔ ہمارے لئے یہ ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے ہم نے گزرے 75 سال کے دوران بہت سے سانحات کا سامنا کیا ہے۔ کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے بھارت اس پر قبضہ ہی نہیں کر چکا بلکہ اسے ہڑپ کر چکا ہے۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ ہم سیاچین پر اپنا حق کھو چکے ہیں ہم اپنے کئی دریاؤں کے پانی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ہماری زراعت سسک رہی ہے ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹے، چینی اور دیگر اجناس کے بحران کا شکار رہتے ہیں۔ خالص دودھ کا حصول ایک خواب بن چکا ہے ہماری معیشت، ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی ہے پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھو چکا ہے سیاست ذلیل و رسوا ہو چکی ہے۔ کوئی بھی آئینی ادارہ اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ پایا ہے۔ فوج ہو یا پارلیمان، عدلیہ ہو یا انتظامیہ اور الیکشن کمیشن، کوئی بھی ادارہ محترم نہیں رہ گیا ہے۔ عوام رُل چکے ہیں، انہیں معاشی استحکام حاصل ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی دادرسی حاصل ہے۔ عدالتوں پر اس کا اعتماد ہی نہیں رہا ہے۔
ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا ہے۔ اب دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن عملاً کیا ہوا ہے؟ ایٹم بم ہمارے لئے ایک ایسی ذمہ داری بن چکا ہے جسے نبھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے قطعاً مخالف ہے۔ روزِ اوّل سے ہی پاکستان کا ایٹمی پروگرام ان کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور وہ اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ ہم کسی نہ کسی طرح دباؤ برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اب ہماری جو معاشی صورت حال ہو چکی ہے عوام جس معاشی بدحالی کا شکار ہو چکے ہیں، سیاسی ابتری کے باعث ریاست جس قدر کمزور ہو چکی ہے اور ریاستی و ملکی معاملات جس نازک ترین صورت حال کا شکار ہو چکے ہیں اسے دیکھتے ہوئے امکانات پیدا ہو چکے ہیں کہ پاکستان ”ناکام ریاست“ کی شکل اختیار کر لے۔ دور حاضر میں معاشی آزادی کسی بھی ریاست کے قیام و بقا کی ضمانت ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہماری معاشی آزادی ہر لحاظ سے سلب ہو چکی ہے بلکہ ہم نے خود سلب کرا لی ہے اب اگر ریاست ناکام ہوتی ہے تو ہمارا ایٹمی اثاثہ و پروگرام کہاں جائے گا؟ اس سوال کے جواب کے لئے کسی راکٹ سائنسدان کا دماغ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے ہمارے ایٹمی اثاثے ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ ویسے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ایٹمی ہتھیار کسی بھی ملک کی سلامتی کی ضمانت ہرگز نہیں ہوتے۔ سوویت یونین جیسی عظیم سلطنت کی تحلیل اس بات کی دلیل ہے کہ ریاستوں کے خاتمے کے لئے کسی بیرونی لشکر کشی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ریاستیں داخلی طور پر بھی اپنے خاتمے کا بندوبست کر لیتی ہیں ہم اس وقت اسی قسم کی صورت حال کا شکار ہیں۔ بھارت اقوام عالم میں اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہو چکا ہے سفارتی اور معاشی طور پر وہ ایک بڑی طاقتور ریاست کے طور پر اپنا آپ منوا رہا ہے۔ عالمی رینکنگ میں وہ تیسری بڑی معاشی قوت بن چکا ہے حال ہی میں اس نے جاپان پر برتری حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے چین پر برتری حاصل کر کے اولین پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نے ”غربت کے خاتمے“ کے لئے مقابلہ کرنے کا چیلنج دیا ہے جبکہ ہم آٹا، چینی، چاول، نمک، دال اور سبزی کے بحرانوں سے نمٹنے میں مشغول ہیں ہمارا حال انتہائی ابتر ہے اور مستقبل کا قطعاً کوئی پتا نہیں ہے۔