گندم کے سر سبز اورشاداب کھیت…!

گندم کے سر سبز اورشاداب کھیت…!

یہ اللہ کریم کا کرم اور اس کے عطا کیے ہوئے وسائل اور انسانی محنت کا ثمر ہے کہ ہمیں اپنے پیارے وطن میں خریف اور ربیع کی فصلوںکی صورت میں وسیع و عریض زرعی رقبوں پر خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی فصلوں، زرعی اجناس اور سبزیوں کے کھیت ہی نظر نہیں آتے ہیں بلکہ میٹھے ، شیریں اور ذائقہ دار پھلوں سے لدے پندے سر سبز و شاداب باغ بھی اپنی بہاریں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ نسلی اور خاندانی طور پر ایک کسان اور کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھنے کی بنا پر جبلی طور پر کھیتی باڑی سے لگاؤ اور ایک طرح کا رومانس میرے خون میں رچا بسا ہے ، یہ اس کا نتیجہ ہے یا میرے مولا کے مجھ پر خصوصی کرم کا اعجاز ہے کہ پنڈی سے گاؤں آتے جاتے ہوئے آج کل سڑک کے اطراف میں گندم اور خریف کی دوسری فصلوں اور سبزیوں کے لہلہاتے اور شاداب کھیتوں کو دیکھتا ہوں تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس مہربان ذات کا خصوصی کرم اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسی زمین ، ایسا موسم، ایسی آب و ہوا، ایسا ماحول اور ایسے دوسرے قدرتی وسائل وافر مقدار میں عطا کر رکھے ہیں کہ یہاں کے محنت کش کسان ، کاشتکار اور زرعی زمینوں کے مالک چھوٹے بڑے زمیندار ان سے استفادہ کرتے ہوئے ہر گام اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ زرعی اجناس کے ساتھ سبزیاں اور پھل اتنی مقدار میں پیدا کریں اور اُگائیں کہ نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہو سکیں بلکہ ان کو بیرونِ ملک برآمد کرکے قیمتی زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکے۔ یقینا یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم ہے کہ اُس پاک ذات نے ہمیں دریائوں ، ندی نالوں، چشموں اور برفانی گلیشیئروں سے بہہ کرآنے والا میٹھا پانی جہاں وافر مقدار میں عطا کر رکھا ہے وہاں گرم موسم اور سورج کی تپش اور حرارت جیسی قدرتی نعمتوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ اس کے ساتھ انسانی محنت، جدوجہد اور ہر گام آگے بڑھنے کا جذبہ اور کھیتی باڑی اور زراعت کے شعبوں کو ترقی دینے اور آب پاشی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دریائوں، بیراجوں اور ڈیموں کی تعمیر اور ان سے نکالی جانے والی نہریں اور ان کے ساتھ کنویں، ٹیوب ویل، کھادیں اور جدید زرعی آلات وہ وسائل اور ذرائع ہیں کہ جن کی بنا پر زراعت کی ترقی ہی ممکن نہیں ہوئی ہے بلکہ ہر موسم میں مختلف طرح کی فصلوں کے لہلاتے کھیت اور سرسبز و شاداب باغ قدرت کے صناعی اور انسانی 
عظمت کا نقش ابھارتے نظر آتے ہیں۔ 
جیسا ہم سب جانتے ہیں پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک اور گندم ہماری سب سے بڑی فصل اور زرعی پیداوار ہے جو ہماری خوراک کا سب سے بڑا جُزو ہے ۔ گند م خشک و بنجر ، صحرائی اور پتھریلی علاقوں کو چھوڑ کر تقریباً پورے ملک میں کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے خاص حد تقریباً 25، 26ملین ٹن سالانہ سے کم پیداوار ہمارے لیے اس کی قلت اور دوسرے مسائل پیدا کرنے کا سبب ہو سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی پیداوار ضرورت سے زائد بھی ہو تب بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی مصنوعی قلت اور آٹے کا بحران پیدا کرکے عوام کو مشکلات سے دو چار ہی نہیں کیا جاتا ہے بلکہ "بڑے بڑے کاریگر" جو حکومت میں اثر و رسوخ کے مالک ہوتے ہیں ، عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خیر ہمارے ملک میں اس طرح کے سلسلے کب سے چل رہے ہیں اور اللہ جانے کب تک چلتے رہیں گے۔ میں واپس گندم کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف آتا ہوں۔ اُوپر میں نے جیسے ذکر کیا کہ کھیتی باڑی اور کاشتکاری سے ایک طرح کا رومانس میرے اندر رچا بسا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمت اور حصولِ معاش کے تقاضوں کے تحت گاؤں سے باہر رہنے کے باوجود کھیتی باڑی اور کاشتکاری سے تعلق کسی نہ کسی صورت میں ضرور جڑا ہوا ہے۔ والدِ گرامی محترم لالہ جی مرحوم و مغفور زندہ تھے تو کھیتی باڑی کی محنت و مشقت اُنھوں نے اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھی تھی ۔ اپنی طویل عمر کے دوران اکیلے محنت و مشقت کا اتنا بوجھ اُٹھانا بلا شبہ اُن کی ہمت کی بات تھی ۔ تاہم بڑے بھائی جو بفضلِ تعالیٰ بقیدِ حیات ہیں اور مجھ سے عمر میں تقریباً چھ سال بڑے ہیں۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے اور حتی الوسع کھیتی باڑی میں لالہ جی مرحوم و مغفور کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاید یہ پچھلی صدی کی ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی بات ہوگی۔ لالہ جی بیل اور گائے کی جوڑی کے ساتھ ہل چلانے کے لیے صبح صادق کے وقت ہی کھیتوں کا رُخ کر لیا کرتے تھے میں گھر پر ہوتا تو سورج طلوع ہونے کے وقت اُن کے لیے چائے وغیرہ لے کر جاتا۔ وہ چائے پینے اور حقے کے کش لگانے کے لیے بیٹھتے تو میں ہل چلانے لگتا۔ وہ مجھے روک دیتے کہ توُ صحیح نہیں چلا سکے گا اور ہل کی ہر گہری نالی (جسے ہم اپنی زبان میں "سیاڑ" کہتے ہیں) کے درمیان خالی جگہ (پاڑہ) چھوڑ دے گا۔ میرا خیال ہے کہ میں ہل چلانے سے اتنا بھی نابلد نہیں تھا۔ لیکن والدِ مرحوم شاید اس لیے مجھے ہل چلانے سے روک دیتے تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مجھے ہل چلانے کی مشقت اُٹھانی پڑے ۔ ہائے شفقتِ پدری میں تجھے کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں؟ ویسے محترم والد صاحب لالہ جی مرحوم و مغفور کو ہل چلانے میں بے پناہ مہارت حاصل تھی۔ لوگ اُن کے ہل چلائے ہوئے کھیت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ہل سے زمین پر بنی ہر گہری نالی یا "سیاڑ"آپس میں اتنا متوازی ہوتا تھا کہ لگتا تھا کہ کسی نے بے زبان جانوروں کی مدد سے ہل کی یہ گہری نالیاں یا "سیاڑ"نہیں لگائے ہیں بلکہ باقاعدہ پیمائش کرکے کہ سیاڑ یاایک طرح کی گہری نالیاں بنائی گئی ہیں۔ 
میں گندم اور دوسری فصلوں کے کھیتوں کا ذکر کرنے کے بجائے پتہ نہیں کن سہانے زمانوں اور پیارے اور محترم ہستیوں کا ذکر کرنے لگ پڑا۔ ویسے یہ ذکر بھی مجھے بہت عزیز ہی نہیں ہے بلکہ میرے لیے ہمیشہ اس میں انسپائریشن Inspirationرہی ہے۔ خیر میں واپس گندم کے لہلہاتے سنہری رنگت اختیار کرتے کھیتوں کی طرف آتا ہوں ۔ میرے گاؤں کے مشرق اور مغرب میں گاؤں سے متصل اور شمال مشرق اور جنوب مغر ب میں گاؤں سے ہٹ کر دور تک کھیت پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان میں جابجا کنویں ، راہٹ اور چھوٹے موٹے پانی کے بور یا ٹیوب ویل موجود ہیں۔ انہی میں میرے گھرانے کے کھیت بھی پھیلے ہوئے ہیں جن میں ہم تینوں بھائی الگ الگ کھیتی باڑی یا کاشت کرتے ہیں۔ ان میں ٹیوب ویل بھی ہے اور ایک پرانا کنواں جس میں چار پانچ انچ کی پانی کھینچنے والی بجلی کی موٹر بھی نصب ہے۔ افسوس کہ ہم پانی کے ان وسائل سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا پا رہے۔ یہ ہماری نالائقی ، نا اہلی ، عدیم الفرصتی یا افرادی قوت کی کمی ہے کہ ہم اپنے ان کھیتوں اور اپنی اس مزروعہ زمین سے وہ کچھ پیداوار حاصل نہیں کر پا رہے ہیں جو ہمیں حاصل کرنی چاہیے۔ لے دے کے ایک گندم کی فصل ہے جسے ہم بڑی مشکل سے کاشت کرنے کا بندوبست کر پاتے ہیں۔ اس طرح گندم کے یہ کھیت ہمیں خاص طور پر مجھے کچھ زیادہ اور سہانے لگتے ہیں۔ میں گاؤں جاتا ہوں تو کتنی دیر تک اپنے کھیتوں میں گھومتا رہتا ہوں اور اُردو نظم کے نمائندہ اور بے مثال شاعر جناب مجید امجد مرحوم کی نظم ’’ہری بھری فصلو‘‘کے یہ مصرعے میری زباں پر رواں دواں ہوتے ہیں۔ ؎
چندن روپ سجو!
ہری بھری فصلو!
جُگ جُگ جیو ، پھلو!

مصنف کے بارے میں