اسلام آباد :وفاقی وزیر برائے ترقی، منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کوروناوائرس کی وجہ سے صحت اور معیشت کے شعبہ میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں بہت بڑی تباہی آرہی ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ کوروناوائرس سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کریں ، اس بات کو سمجھیں کہ مشکل حالات ہیں اور خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ، جس طرح حالات کو مینج کیا جارہاہے اس کے نتیجہ میں دوسرے کچھ ممالک میں جس طرح بدترین صورتحال دیکھنے کو ملی ،اس طرح کی صورتحال یہاںنظر نہیں آئے گی تاہم میری یہ پیشنگوئی اس وقت درست ثابت ہو گی جب ہم میں سے ہر شخص اپنی ذاتی ذمہ داری پوری کرے گا۔حکومت نے تاجروں کے لئے بڑے فیصلے کئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی میں براہ راست میراکوئی تعلق نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ شرح سود میں مزیدکمی کی ضرورت ہے ۔حکومت کو احساس ہے کہ لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا ،حکومت نے اہم فیصلے مزدوروں کو ریلیف دینے کے لئے کئے۔ ا نہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان چاہتے تھے کہ ہم فوری طور پر کنسٹرکشن انڈسٹری کے لئے مراعات دیں، ہو سکتا ہے کہ جب ایک دو ماہ بعد آئندہ بجٹ آئے تو اس میں دوسروں کے لئے بھی ہو ۔ کنسٹرکشن پاکستان میں ذراعت کے بعد دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے جس میں روزگار ملتا ہے اور شہری پاکستان کے اندر سب سے بڑا روزگار کا شعبہ ہے اس لئے سب سے پہلے اس کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ کے اندر افراط زر میں چار فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ تمام اعشاریئے بتارہے ہیں کہ آگے افراط زر گرتی چلی جائے گی۔ انہوں نے کہا کوروناوائرس کی وجہ سے امریکہ میں بیروزگار ی کی شرح بلند ترین شرح پر پہنچ گئی اور کوروناوائرس سے ہونے والے نقصانات کی ریکوری ہفتوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ہو گی اور کچھ اندازے تو یہ کہتے ہیں کہ ڈیڑھ سے دو سال مکمل ریکوری میں لگ جائیں گے۔ وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ پیکج میں تمام ایسے فیصلے کئے گئے ہیں کہ کس طرح کورونا بحران سے متاثرہ شعبوں اور لوگوں کی کس طرح مدد کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کوروناوائرس کی وجہ سے صحت اور معیشت کے شعبہ میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں بہت بڑی تباہی آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم احساس پروگرام میں 50لاکھ افراد کو مدد فراہم کررہے ہیں تاہم کوروناوائرس کی وجہ سے ہم اگلے چار ماہ کے لئے یہ تعداد ایک کروڑ 20لاکھ تک لے کر جارہے ہیں ،حکومت کہہ رہی ہے کہ کم ازکم 70،75لاکھ لوگ ایسے ہوں گے جن کی آمدنی میں کورونابحران کی وجہ سے کمی آئے گی اور جن کو مدد کی ضرورت ہو گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر مشکل صحت اور معیشت کے شعبہ پر ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان، جرمنی ، فرانس ، امریکہ اور برطانیہ میں فرق کیا ہے ، لگ بھگ پاکستان کی دو تہائی آبادی سطح غربت سے نیچے ہے اور اتنی ہی اور تعداد ہے جو سطح غربت سے ذرا سااوپر ہیںاور ہماری پرانی ہسٹری یہ بتاتی ہے کہ جب کوئی شاک لگتا ہے، یا کوئی زلزلہ آگیا ، کوئی سیلاب آگیا یا کسی کے گھر کے اندر بیماری آئی تو یہ لوگوں کی ایک تعداد سطح غربت سے نیچے چلی جاتی ہے ، جب ہم نے فیصلے کرنے ہیں یا بھارت جیسے ملک نے فیصلے کرنے ہیں یا بنگلادیش جیسے ملک نے فیصلے کرنے ہیںتو ہمیں اس پہلو کا خیال بنسبت یورپی ممالک کے ذرہ زیادہ رکھنا ہے جہاں سوشل سکیورٹی نیٹس بہت بہتر ہیں اور جہاں آمدنی کی شرح بہت بلند ہے وہاں بقا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ 200 ارب روپے کا پروگرام اس دیہاڑی دار طبقہ کے لئے بنایا گیا ہے جس کی روز ی چلی گئی، ریسٹورنٹ کا ورکر اور جو فارمل سیکٹر میں کام نہیں کرتا، پاکستان میں لیبر ڈیٹا انتہائی کمزور ہے،مزدور اور غریب کی بات کوئی نہیں کرتا اس لئے اس پر توجہ بھی کم جاتی ہے ، مزدور طبقہ ہمارے ملک میں نظرانداز طبقہ ہے اگر ہمارے پاس بہتر ڈیٹا ہوتا تو ہم زیادہ آسانی سے ا ور زیادہ تیزی سے ہم ان کی مدد کر سکتے تھے،200ارب روپے اس طبقہ کے لئے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری غربت کی سطح میں اور حکومت کی استطاعتمیں یہ آپشن ہی نہیں ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ولائت کی طرح چھ ماہ تک صنعتوں کو بند کر کے رکھ دیں اور نظام چلتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کورونا بحران ختم ہو گا تو پھر تاریخ فیصلہ کرے گی کس نے درست فیصلے کئے اور کس نے درست فیصلے نہیں کئے ۔ میرے خیال میں کوروناوائرس کے تناظر میں فیصلوں کے حولا سے اب تک سب سے جامع اور مربوط حکمت عملی وفاقی حکومت کی رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوروناوائرس کے تناظر میں وزارت خزانہ نے جس قسم کا ریلیف پیکج دیا ہے اس کی کوئی توقع نہیں کررہا تھا۔