ریاض : وزار ت صحت کے ماتحت انسداد ایڈز قومی پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سناءمصطفی فلمبان نے بتایا ہے کہ 2018ءکے دوران ایڈز کے سعودی مریضو ںکی تعداد 533تک پہنچ گئی۔ 6مردوں کے مقابلے میں ایک خاتون ایڈز کی مریضہ ہے۔
ڈاکٹر سناءنے سبق ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی صحافی ابراہیم الفرحان نے ایک ٹی وی پروگرام ”ما لم تر“ پیش کیا۔ جس کے معنی ہیں (وہ جو آپ نے نہیں دیکھا) اس میں ایڈز کے مختلف پہلوﺅں کا احاطہ کیا گیا۔ بتایا گیا کہ ایڈز کے83فیصد مریضوں کی عمریں 15تا 49برس ہیں۔
”مناعہ سوسائٹی“ کے بانی چیئرمین عبداللہ الحقیل نے بتایا کہ 1985ءسے لیکر 2019ءتک سعودی عرب میں ریکارڈ پر آنے والے ایڈز کے مریضوں کی تعداد 20ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں سے 7500سعودی اور 12ہزار سے زیادہ غیر ملکی ہیں۔
ابراہیم الفرحان نے اپنے ٹی وی پروگرام میں ایڈز کے مرض میں مبتلا شہریوں کے انسانی مسائل کو بھی اجاگر کیا۔ اس میں ”محمد نامی“ ایک شہر ی کا درد انگیز واقعہ پیش کیا گیا۔ جس میں بتایا گیا کہ محمد شادی کی تیاریاں مکمل کرچکا تھا۔ شادی گھر کی بکنگ ہوچکی تھی۔ تمام انتظامات انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ اسی دوران اس نے طبی معائنہ کرایا جس سے پتہ چلا کہ وہ ایڈز کے مرض میں مبتلا ہے اور اس کے جسم کا 99 فیصد حصہ ایڈز سے متاثر ہوچکا ہے۔
محمد، ڈاکٹر کی زبانی یہ اندوہناک رپورٹ سن کر سکتے میں آگیا۔ اسے شروع میں تو یقین ہی نہیں آیا کہ وہ ایڈز میں مبتلا ہے۔ اسی لئے اس نے 2بار نہیں بلکہ 4بار ایڈز ٹیسٹ کرائے۔ آخر میں ڈاکٹر نے اسے پیار سے سمجھایا کہ اللہ کو یاد کرو اور اس پر اپنا یقین رکھو۔
ابراہیم الفرحان نے اپنے پروگرام میں ”علی“ نامی ایک اور شہری کا قصہ بھی پیش کیا۔ علی کا المیہ بالکل مختلف نکلا۔ اسے ایڈز کا مرض اس کی پہلی بیوی نے دیا۔ علی نے دوسری شادی کرلی تھی۔ اسکی پہلی بیوی چاہتی تھی کہ دوسری بیوی سے علی کی اولاد نہ ہو اسی لئے اس نے انتہائی فنکارانہ طریقے سے اپنے شوہر علی کو ایڈز کا مرض لگادیا۔ علی کا کہناہے کہ میں جس درد اور کرب میں مبتلا ہوں اس کا احساس وہی شخص کرسکتا ہے جو اس کا شکار ہوچکا ہو۔
مذکورہ ٹی وی پروگرام میں ایک اور انسانی مسئلہ بھی نمایاں کیا گیا ۔ مسئلہ عبداللہ نامی ایک شہری کا تھا۔ جسے ایڈز کے مرض میں مبتلا ہونے پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھ ا۔ عبداللہ نے اپنی بپتا سناتے ہوئے انتہائی حسرت اور افسوس کے عالم میں کہا کہ یہ وقت ایسا تھا جب مجھے سہارے کی ضرورت تھی نہ کہ ملازمت سے برطرف کرکے قبرستان سے مزید قریب کردینے کی۔
وزارت محنت و سماجی بہبود کے ترجمان خالد ابا الخیل نے اس حوالے سے قانونی اور سرکاری موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ سعودی قانون کے بموجب کسی بھی ملازم کو ایڈز کے مرض میں مبتلا ہونے پر برطرف نہیں کیا جاسکتا۔