اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی اور ایرانی عوام کو مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کی کافی قربت حاصل ہونی چاہیے ، شائد کافی حد تک ایسا ہے بھی۔ لیکن حکومتی سطح پر جانے کیوں ان برادر ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاو آتا رہتا ہے۔کچھ لوگ اسے فرقہ وارانہ تقسیم کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن شائد اس کی اصل وجہ بین الاقومی سیاست اور گروپ بندی ہے۔ اور اگر کھل کر بات کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دو ہمسایہ ممالک کے اچھے تعلقات کی راہ میں امریکہ اور سعودی عرب سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
بین الاقومی سیاست کے تقاضے جو بھی ہوں لیکن ان دونوں ملکوں (پاکستان اور ایران)کو یہ بات سمجھنے کے لیے ممکنہ طورپر آخری موقع ہے کہ انہوں نے آپس کے بہترین تعلقات کو جس بین الاقومی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اس کے نتیجہ میں دونوں ممالک کی سالمیت اور ان کے ایٹمی اثاثوں کو شدید قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔
اگر ماضی کے جھروکوں سے جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران ہمارا ایک ایسا دوست ہے کہ جس نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے اس کے وجود کو تسلیم کیا اور شاہ ایران پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 1950 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور رضا شاہ پہلوی نے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ اور پھر 1965 کی پاک- بھارت جنگ کے دوران ایران نے دوستی کی اعلیٰ مثال قائم کی ۔اس صورتحال میں ایران نے نہ صرف جنگ کے دوران بھارت کو پیٹرول کی فروخت سے انکار کر دیا بلکہ اس نے پاکستان کو مداد کے طور پر 5000 ٹن پیٹرولیم مصنوعات بھی دیں۔ اس موقع پر ایران نے جنگ سے متاثرہ پاکستان کی مدد کے لیے بڑی تعداد میں ڈاکٹر، نرسیں اور ادویات کی بڑی مقداربھی بھیجیں۔
اسی طرح 1971 کی پاک -بھارت جنگ کے دوران ایک مرتبہ پھر ایران نے معاشی اور سفارتی سطح پر پاکستان کی بھرپور انداز میں مدد کرنے کے علاوہ جنگی سازو سامان کی امداد بھی بھیجی۔ اس کے علاوہ جب بھی پاکستان کو کسی مشکل کا سامنا ہوا ایران نے ایک مخلص دوست کا کردار ادا کیا۔
شائد کمزور حکومتوں، عدم توازن کا شکار سیاسی صورتحال یا کوئی اور وجوہات تھیں جن کی بنا پر ہم نے ایران سے، اس کے نیوکلیر پروگرام کی وجہ سے عائد امریکی پابندیوںکے احترام، فاصلہ بڑھایا۔ اس قسم کے فیصلوں کے اثرات یقینا ایران پر بھی آئے ہوں گے لیکن پاکستان کے صنعتی شعبہ کو تو کافی زیادہ نقصان پہنچا، پھلوں کی برآمد بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ہم ایران سے سستا پیٹرول اور گیس خریدنے سے بھی محروم ہیں۔
یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ جن کی محبت میں ہم نے یہ سب قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں، انہوں نے جنگوں کے نام پر اربوں ڈالر تو جھونک ڈالے لیکن نقصان کی تلافی کے نام پر پاکستان کو دو پیسے تک نہ دیے۔ ہماری سیاست میں اس وقت جو لوگ روس سے سستا تیل خریدنے میں ناکامی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ ایران سے اس قسم کے معاہدے نہ ہونے اور پاکستان-ایران گیس پائپ لائین منصوبہ مکمل نہ ہونے پر جانے کیوں خاموش رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سی پیک منصوبہ بھی جانے کن وجوہات کی بنیاد پر کھٹائی کا شکار ہے حالانکہ پاکستان اور چین کے علاوہ ایران کی بھی اس منصوبے میں گہری دلچسپی ہے۔
ہاں تو بات تھی مستقبل قریب میں پاکستان اور ایران کو درپیش خطرات کی۔ اگرچہ تجزیہ کا ر اس پر زیادہ کھل کر اظہار خیال نہیں کر رہے لیکن اب یہ بات زیادہ ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت - اسرائیل گٹھ جوڑ اب پاکستان اور ایران کی سالمیت اور ان کے ایٹمی اثاثوں کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اپنی دفاعی صلاحیتوں اور جنگی تیاریوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ ایک تازہ ایکشن میں اس نے اپنے جنگی جہازوں کی ائیر بیس پر لینڈنگ کے بغیر ہی فضا میں ہی ان کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے 927.5 ملین ڈالر کے عوض بوئنگ کمپنی سے چار ملٹی مشن KC-46 ری فیولنگ ٹینکر کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے۔ جن کی ڈلیوری 2025 میں شروع ہو جائے گی۔
بظاہر تو یہ خریداری اسرائیلی فضائیہ کے تقریباً پچاس برس پرانے ٹینکرز، بوئنگ 707،کی تبدیلی کے لیے او ر اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے کی گئی ہے لیکن اس کا اصل مقصد ایران کی ایٹمی تنصیابات پر ممکنہ حملہ کی صورت میں جنگی جہازوں کو فضا میں ہی ایندھن فراہم کرنا ہے۔
ایک اوررپورٹ کے مطابق بھارت بھی جنگی تیاریوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اور اپنے غربت سے مرتے ہوئے عوام کو نظرانداز کرتے ہوئے کروڑوں ڈالر جنگی ساز وسامان کی خریداری اور اسے اپ ڈیٹ کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے اسرائیل کے تعاون کے ساتھ اپنے چھ مسافر بوئنگ 767طیاوںکے ڈیزائن میں تبدیلی کر کے انہیں ری فیولنگ ٹینکرز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں ہندوستان ائیرناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) اور اسرائیل ائیروسپیس انڈسٹریز (آئی اے آئی) میں باقاعدہ طور پرایک معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔ یہ چھ ری فیولنگ ٹینکرز روسی ساخت کے ان چھ ٹینکرز کے علاوہ ہوں گے جو پہلے سے ہی بھارتی فضائیہ کا حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ بھا رت اور اسرائیل کی جانب سے ری فیولنگ ٹینکرز پر کروڑوں ڈالر کے اخراجات ان کی جنگی تیاریوں کا صرف ایک ضمنی سا حصہ ہیں، دیگر تیاریاں اور ان پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
جنگ مسائل کا حل نہیں لیکن دشمن ممالک کی بھر پور انداز میں تیاریاں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کے لیے کسی بھی الارم سے کم بھی نہیں۔ یقینا وقت آ گیا ہے کہ ہر قسم کی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور کسی کی بھی ناراضی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ دونوں ممالک بھی مشترکہ دفاعی حکمت عملی تشکیل دیںتاکہ ان کی سالمیت اور ایٹمی اثاثوں کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔