پچھلے دنوں میرے پاس کچھ ”رینکرز پولیس افسران“ تشریف لائے۔”رینکرز“ کو ”افسران“ کہنے پرمیں اپنی پی ایس پی کلاس سے معافی چاہتا ہوں، کیونکہ اُن کے نزدیک ”رینکرز“ کو ملازمین تو کہا جاسکتا ہے، افسران کہلوانے کا حق صرف سی ایس پی اور پی ایس پی کلاس کو ہی ہوتا ہے، اِس کلاس میں بے شمار اچھے افسران بھی ہیں، مگر میں اُس عمومی تاثر کی بات کررہا ہوں جو سی ایس پی اور پی ایس پی کلاس سے جُڑاہواہے، اِس تاثر کے حوالے سے ایک واقعے کا میں عینی شاہد ”موقع کا گواہ“ ہوں، ایک ایس ایس پی جو خیر سے بطور ایڈیشنل آئی جی اپنی مدت ملازمت سے انتقال فرما چکے ہیں، یعنی ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ایک بار ریس کورس پارک کے جاگنگ ٹریک پر سامنے سے آتے ہوئے مجھے دکھائی دیئے، میں نے اُن سے نظریں چُراکر بچ نکلنے کی بہت کوشش اِس لیے کی کہ واک یا جاکنگ کے لیے آنے والے ہر شخص کی اپنی ایک سپیڈ ہوتی ہے۔ اِس دوران اُسے اُس کا کوئی واقف کار مِل جائے، اور وہ اُسے باتوں میں لگالے، دوسرے کو اُس کی سپیڈ کے مطابق چلنا یا دوڑنا پڑتا ہے، بلکہ کبھی کبھی رُکنا بھی پڑتا ہے جس سے اُس کی سپیڈ کے سارے”ٹیمپو“ کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے، چنانچہ میری عادت ہے جاکنگ ٹریک پر واک یا جاکنگ کرتے ہوئے سامنے سے کوئی واقف کار آتا ہوا دکھائی دے میں اپنے وزیراعظم کی طرح ”بے دید“ ہوجاتا ہوں، اُس سے نظریں پھیر لیتا ہوں، اِس دوران بعض اوقات مجھے جان بوجھ کرروایتی فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی کی کال آئے موبائل فون کان سے لگانا پڑتا ہے، تاکہ دوسرے کو احساس ہواگلا فون سننے میں اتنا مگن تھا اُسے میری طرف دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، کسی کو نظرانداز کرنے کا اب یہ ایک روایتی طریقہ کار ہے، بعض اوقات اِس کا خمیازہ بھی اِس صورت میں بھگتنا پڑتا ہے کہ کان سے لگے ہوئے موبائل فون کی اچانک ”ٹلی“ کھڑک جاتی ہے جس کے بعدکئی روز تک کانوں کے پردے درد کرتے رہتے ہیں، …… خیر ایس ایس پی صاحب جن کی پوسٹنگ اُن دنوں لاہور میں تھی اُن کی نظر مجھ پر پڑی، بلکہ پہلے میری اُن پر پڑی اور میں اُن سے بچ کر نکلنے کی کوشش ابھی کرنے ہی لگاتھا کہ اُنہوں نے مجھے آواز دی جو میں نے جعلی فون کال سنتے ہوئے نظرانداز کردی مگر اُنہوں نے تقریباً بھاگتے ہوئے مجھے شرٹ سے پکڑ لیا، نہ چاہتے ہوئے بھی اخلاقاً مجھے رُکنا پڑا۔ اُنہوں نے کھڑے کھڑے بڑی بورنگ گفتگو شروع کردی۔ میرا خیال تھا ایک آدھ منٹ بعد میں اُن سے اجازت لے کر دوبارہ اپنی سپیڈ کے مطابق واک یا جاکنگ شروع کردُوں گا، مگر اُس وقت مجھے شدید ”دھچکا“ لگا جب اُنہوں نے فرمایا ”آج کل اُنہیں کمر میں شدید درد ہے، ڈاکٹروں نے اُنہیں وزن کم کرنے کی ہدایت کی ہے، اور اِس مقصد کے لیے روزانہ ہلکی ہلکی واک کی ہدایت بھی کی ہے، اصل میں ہلکی ہلکی واک کا مزہ اُسی صورت میں آتا ہے جب آپ جیسا کوئی مخلص دوست ساتھ ہو“،……اُن کی بات سُن کر میرے مزید پسینے چھوٹ گئے۔ اُس روزبڑی مشکل سے اُن کے ساتھ اُن کی سپیڈ کے مطابق جو کچھوے کی چال جیسی تھی ایک راؤنڈ میں نے مکمل کیا، اگلے روز میں نے پارک بدل لیا، مجھے اُن کا فون آیا آج آپ آئے نہیں؟، میں نے عرض کیا ”سرکل رات سے میری کمر میں بھی شدید درد نکل آئی ہے اورپروفیسر عامر عزیز صاحب نے دو مہینے میری واک مکمل طورپر بند کردی ہے“…… اب میں اصل واقعے کی طرف آتا ہوں، اُس روز جاکنگ ٹریک پر ایک ایس ایچ او اُنہیں واک کرتا نظر آگیا، اُس بے چارے ایس ایچ او نے اُنہیں سلیوٹ بھی کیا جس کا جواب رسمی طورپر بھی سرہلاکر اُنہوں نے نہیں دیا، دوران واک ایس ایس پی صاحب کا وائرلیس آپریٹر بھی اُن کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، اُنہوں نے اُسے ہدایت کی اِس ایس ایچ او سے کہو ”یہاں صاحب واک کرنے آتے ہیں، تم کسی اور پارک میں جایا کرو“،…… مجھے اُن کی اِس فرعونیت پر سخت غصہ آیا جس کا اظہار بھی موقع پر ہی میں نے کردیا، ……عرض کرنے کا مقصد یہ ہے سی ایس پی اور پی ایس پی کی اپنی ہی کلاس ہوتی ہے، اپنی ہی سوچ ہوتی ہے، چند اِس قدر گھٹیا سوچ کے مالک ہوتے ہیں اپنے جونیئرز یعنی ”رینکرز“ کو افسران تو دُور کی بات ہے انسان ہی نہیں سمجھتے، …… ابتداء میں، میں نے عرض کیا تھا پولیس کے کچھ ”رینکرز افسران“ میرے پاس آئے اور اِس خواہش کا اظہار کیا اُن کے ساتھ ہونے والی دیرینہ زیادتی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے نوٹس میں لاؤں اور اُن سے گزارش کروں وہ اُنہیں انصاف فراہم کریں، اِس کے علاوہ اُنہوں نے اِس خواہش کا اظہار بھی کیا میں اگر سمجھتا ہوں اُن کے ساتھ واقعی زیادتی ہورہی ہے اُس پر کالم بھی لکھوں، اُن کا خیال ہے میرا کالم بہت پڑھا جاتا ہے، …… میں نے عرض کیا میں آپ کی دونوں خواہشات کا احترام کرنے کے لیے تیار ہوں مگر اِس کا اُلٹا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی طرف سے انصاف فراہم کرنے کا معاملہ ہے تو ”تحریک انصاف“ کے سربراہ ”انصاف“ تو ایک اچھی ٹیم کا انتخاب نہ کرکے اپنے ساتھ نہیں کرسکے، کسی اور کے ساتھ اُنہوں نے کیا کرنا ہے؟، مگر میں آپ کا پیغام اُن تک پہنچا ضرور دُوں گا …… مجھے اُن رینکرز پولیس افسران کے ساتھ ہونے والی مسلسل زیادتی وناانصافی کی داستان سُن کر افسوس ہورہا تھا، مین سوچ رہا تھا کتنا بڑا المیہ ہے یہاں ہر کسی کو وزیراعظم یا عدالتوں سے انصاف مانگنا پڑتاہے، وہ بھی کسی کو ملتا ہے، کسی کو نہیں ملتا، نیچے کوئی متعلقہ شخصیت یا اُن کا ادارہ ایسا نہیں جو اُنہیں انصاف دے سکے؟،…… یہی سوال جب اپنے پاس بیٹھے رینکرز افسران سے میں نے پوچھا اُنہوں نے اِس حوالے سے جو تفصیلات مجھے بتائیں اِس قدر دل دہلا دینے والی تھیں، میں مزید حیران ہوا کیسے کیسے انصاف دشمن افسران پاکستان خصوصاً پنجاب میں تعینات ہیں ……میں نے شاید پہلے بھی لکھا تھا ”اللہ کو یقین تھا دنیا خصوصاً پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران اپنے ماتحتوں کو یا عام لوگوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے، یا لوگ ایک دوسرے کو انصاف نہیں دے سکیں گے، لہٰذا اللہ نے اپنا ایک ”یوم انصاف“ یا ”یوم حساب کتاب“ مقرر کیا، بے شک وہی سب سے بڑا منصف ہے، اللہ نے ہمیں اپنا ”نائب“ مقرر کیا، ہم نے مگر ہر معاملے میں ثابت کیا ہم اِس ”اعزاز“ کے اہل ہی نہیں تھے، خصوصاً دوسروں کو انصاف دینے کے معاملے میں تو بالکل ہی نہیں تھے، ……(جاری ہے)