اسلام آباد:عالمی بنک نے 50 ہزار روپے اور اس سےکم آمدن والوں (مزدوروں) پر ٹیکس لگانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ لاکھ روپے ماہانہ آمدن والوں پر 35 فیصد شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔
عالمی بنک کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ان شعبوں پر خرچ نہ کرے جو صوبوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔وفاقی و صوبائی دائرہ کار میں فنانسنگ کا لائحہ عمل طےکیا جائے۔ دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ٹیکس فری آمدن کی حد کم کی جائے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ترقی پزیر ملکوں کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کم از کم 15 فیصد ہونی چاہیے۔ اصلاحات کی کئی کوششوں کے باوجود پاکستان میں ٹیکس محاصل کم ہیں۔لینڈ اورنرشپ ریکارڈ کو قومی شناختی کارڈ اور نیشنل ٹیکس نمبر سے لنک کرنے پر زور ہے۔ پراپرٹی ٹیکس ریٹس میں مارکیٹ ویلیو کے مطابق اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔
عالمی بینک نے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹیز پر دی جانے والی چھوٹ ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ مختلف اشیاء پر 18 فیصد اسٹینڈرڈ جی ایس ٹی عائد کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔سالانہ 6 لاکھ روپے سے کم آمدن والے افراد کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
زراعت، پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ، ری ٹیل، سگریٹس سیکٹر سے اضافی ٹیکس وصولی ، لگژری اشیاء پر ٹیکس بڑھانے، درآمدی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ٹیکس چھوٹ کی مد میں بڑے پیمانے پر ریونیو کا نقصان ہو رہا ہے۔کارپوریٹ انکم ٹیکس کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔
عالمی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مالی استحکام کا دارومدار ریونیو اصلاحات پر ہے۔پاکستان میں پرسنل انکم ٹیکس کا اسٹرکچر آسان بنایا جائے۔ زرعی شعبے میں ساڑھے 12 ایکڑز زمینوں کے مالکان پر ٹیکس لگایا جائے۔ صوبے اپنی صلاحیت سے کم ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ مناسب تیاری اور جائزے کے بغیر شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبے ختم کر دیے جائیں۔کئی کمپنیوں کو ترجیحی ٹیکس اسکیمز کی سہولت حاصل ہے۔