پنجاب پولیس کا نیا تماشا

پنجاب پولیس کا نیا تماشا

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کوکیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
خبر یہ ہے کہ عوام پولیس کی دوست بنے گی۔ تاہم ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ پولیس بھی عوام کی دوست بنے گی یا نہیں؟ ویسے عوام تو جبراً قہراً کبھی نہ کبھی پولیس کی دوست بنتی ہی رہتی ہے۔ انکا یہ ’جذبہ خیر سگالی‘ خوف، دباؤ یا لالچ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے دریا میں رہ کر مگرچھ سے بیر کیسا۔ مگر مچھ بھی ایسا کہ عوام کو کھانے اور اس پر آنسو بہانے کے فن میں بھی خوب ’پاکٹ‘ ہے۔ پولیس نے اس فن میں دن دُگنی اور رات چُگنی ترقی کی ہے۔ ایک طرف پولیس کا وہ بجٹ ہے جو پہلے ہی اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے اور دوسری جانب ریاست ِ پاکستان کی شکل میں وہ لمبی چوڑی اورکھلی شکارگاہ جس کے ہر کونے کھدرے میں پولیس اہلکار روزانہ کی بنیاد پر عوام کی جیبوں پر شب خون مارتے ہیں۔ ایف آئی آر کا اندراج ہو، مقدمے کی تفتیش ہو یا پھر ملزمان کی گرفتاری، پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ، ورنہ خاموشی سے گھر کی راہ لے، یہی ہے عوام کو پولیس کا حقیقی اور واضح پیغام۔ پہلے ’تماشے‘ ابھی ختم نہ ہوئے تھے کہ نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ پنجاب پولیس نے چند روز قبل لاہور کے ایک مقامی ہال میں پولیس کے دوست کے نام پر ایک اور نیا ’رونق میلا‘ سجا لیا۔ ویسے کرنے کو تو بہت سے ضروری کام اور بھی باقی تھے۔
پنجاب میں جرائم کا گراف خطرناک حد عبور کر چکا ہے۔ سٹریٹ کرائم ہو یا پھر راہزنی اور ڈکیتی کی بڑھتی وارداتیں، مذہبی جلاؤ گھیراؤ اور پولیس تشدد کے واقعات ہوں یا پھر دہشت گردی کی نئی لہر پولیس روکنے میں بے بس نظر آتی ہے۔ ویسے ان سب سے نظریں ہٹوانے کے لیے پولیس کے ’تماشا گروں‘ کا ایک نیا پتلی تماشا سجانے کا حالیہ عمل کچھ نہ کچھ تو کارگر ضرور ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے کچھ ایسے نوجوان طلبہ کی خدمات حاصل کی ہیں جو معاشرے میں پنجاب پولیس کے سفیر بنیں گے۔ انہیں پنجاب بھر کے مختلف پولیس سٹیشنز، خدمت سنٹرز، تحفظ مرکز اور میثاق سنٹرز کے دورے کرائیں جائیں گے تا کہ انہیں پولیس کے فرائض منصبی کی انجام دہی کے طریقہ کار کے متعلق آگاہی حاصل ہو۔ پولیس کے مطابق یہ نوجوان پولیس کے امیج اور عوام کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کرینگے۔
پنجاب پولیس کی ’کہنہ مشق اور سمجھدار قیادت‘ کا نیا پتلی تماشا اپنی جگہ تاہم یہ سوال ہنوز حل طلب ہے کہ جو پولیس گزشتہ 76 سال سے کھربوں روپے ہڑپ کرنے کے باوجود عوام میں اپنا امیج درست نہیں کر سکی، بھلا وہ امیج یہ چند نوجوان کیسے درست کر پائیں گے۔ کیا نوجوان عوام کو یہ بتائیں گے کہ پنجاب پولیس میں آج شاہد جٹوں کی تعداد کتنی ہے اور ان کی موشگافیوں کے بعد انہیں کیسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے؟ کیا وہ عوام کو اس بارے میں آگاہ کرینگے کہ پنجاب پولیس کے درجنوں تھانیدار ایس ایچ صغیر میتلا کی طرح چھاپوں کے دوران بھاری منشیات اور منشیات فروشوں سے حاصل ہونے والے کروڑوں روپے کس خوبصورتی سے جیب میں ڈالتے اور پیٹی بندوں کی مدد سے بعد ازاں بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں یا پھر وہ یہ بتائیں گے 40 سے زائد بار معطل ہونے اور کئی بار نوکری سے برخاست ہونے والے مظہر اقبال عرف مظہری کی طرح انسپکٹر ہونے کے باوجود ڈی ایس پی کی سیٹ پر کیسے تعینات ہوا جاتا ہے؟ اگر یہ سب کچھ وہ نہ کریں تو کیا پھر وہ عوام کو اس بارے میں آگاہ کرینگے کہ گوجرانوالہ کے ایک ایس ایچ او کی طرح کروڑوں روپے مالیت کی مسروقہ گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور دیگر سامان کیسے ہڑپ کیا جاتا ہے یا پھر وہ بتائیں گے کہ عوام تو روز ہی لُٹتے ہیں پنجاب پولیس کا ایک ایس پی کیسے لٹا؟ گویا جاگتے رہنا بھائیو، پولیس پر نہ رہنا۔ ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کہیں یہ نوجوان بیچارے پولیس کے جدید مخبر تو نہیں کیونکہ عوام میں پولیس کے ’دوستوں‘ کی یہی اصطلاح رائج ہے۔ مخبروں کا یہ نظام آج اتنا فعال نہیں رہا جتنا یہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن کیا پولیس کے ان دوستوں کے ساتھ وہ سلوک بھی ہو گا جو پولیس اکثر غلط انفارمیشن دینے یا مرضی کے مطابق نہ چلنے پر اپنے مخبروں کے ساتھ کرتی ہے جس کے بعد وہ کئی دن تک ہاتھ لگا لگا کر پچھواڑا ’سیکتے‘ رہتے ہیں۔ گویا
چاہ میں اسکی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سُرخی میرے رخسار کی
ویسے عوام بہت سمجھدار ہے انہیں معلوم ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی نہیں پی سکتے کیونکہ اگر گھوڑے نے گھاس سے دوستی کر لی تو پھر وہ بھلا کیا کھائے گا۔ پنجاب پولیس کی قیادت کے لیے یہی مشورہ ہے کہ نئی بازی گریاں دکھانے کے بجائے وہ پولیس آرڈر 2002 پر ہی عمل کر لے تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ اس آرڈر کے مطابق پولیس کے احتساب اور کمیونٹی پولیس کے لیے بتائے گئے کمیشن ہی بنا لیے جائیں تو پولیس کی کارکردگی میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا۔
تھانہ کلچر تبدیل کرنا ہے تو پہلے پنجاب میں بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پائیں۔ پولیس کے زیر حراست ملزمان پر بہیمانہ تشدد کے واقعات کا بروقت نوٹس لیں، شاہد جٹوں کو پروٹوکول دینے کے بجائے ان کے خلاف کارروائی کریں، افسران سے لیکر نیچے تک موجود گالی گلوچ کے کلچر کو ختم کریں، کچے کے علاقہ میں جعلی آپریشن کے بجائے صوبہ بھر میں صحیح آپریشن کر کے ڈاکوؤں اور چوروں کا قلع قمع کریں، ایف آئی آر کے بروقت اور بلا معاوضہ اندراج کو یقینی بنائیں، ملزمان کی گرفتاری کے لیے سائلین کی جیبیں خالی کرانے کے عمل کو بند کریں ورنہ لاہور کے تھانہ مزنگ جیسے ماڈل تھانے تو شاید اور بنیں گے لیکن ان کے عقب میں کھلے عام منشیات بکتی رہے گی۔