لاہور: سنیئر صحافی مظہر عباس کے مطابق عمران خان کیلئے جو کام شریف اور زرداری نہ کرپائے وہ ان کے سب سے پسندیدہ کردار وزیراعلیٰ پنجاب ’عثمان بزدار‘ نے کر دکھایا ،آج خان جیل میںہیں اور بزدار مزے کررہے ہیں۔
سنیئر صحافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ تقریباً 17 ماہ بعدمیاں صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف اور پی ڈی ایم حکومت کا بوجھ اٹھانا ہے اور سامنے ایک تگڑا حریف ’اٹک جیل‘ میں ہونے کے باوجود تمام تر مقدمات کے باوجود خود ’گیلپ سروے‘ کے مطابق مقبولیت میں ان سے خاصہ آگے ہے۔ ویسے تو اس وقت میاں صاحب بھی نااہل ہیں اور عمران بھی۔ دونوں کو سزا کا بھی سامنا ہے۔ اب خان صاحب کو تو پتا چل گیا کہ ان کا ’وسیم اکرم پلس‘ ان کے زوال کا باعث بنا میاں صاحب کو شاید 21؍اکتوبر کو اپنے پرانے ’ہوم گراؤنڈ‘ پر کھیلنے کے بعد پتا چل جائے مگر وہ کھیل سیاسی حریف کے بغیر کھیلنے کے خواہش مند ہیں۔ اگر عمران کو ہٹا کر الیکشن ہوجاتےتو شاید میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) اس مشکل میں نہ ہوتی، وزارت اعلیٰ پنجاب کے منصب پر رہنے والے ’مسٹر اسپیڈ‘ دراصل میاں صاحب کے ’عثمان بزدار‘ ثابت ہوئے جس کی وجہ سے لوگ اصل ’بزدار‘ کو بھول گئے۔ رہی سہی کسرخود میاں صاحب نے پوری کردی جب انہوں نے جناب ’مفتاح اسماعیل‘ کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹاکر اسحاق ڈار کو لگانے کا مشورہ دیا جس پر شہبازشریف اپنے تحفظات کے باوجود انکار نہ کرسکے۔ ڈار صاحب چھوٹے میاں صاحب کیلئے دراصل ’بزدار پلس‘ ثابت ہوئے۔
اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سیاستدان آہستہ آہستہ اپنا اسپیس دوسرے کے حوالے کرتے جارہے ہیں اور خود ایک دوسرے سے سیاسی انتقام لے رہے ہیں کبھی ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگاکر تو کبھی ’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘ کہہ کر۔
اچھا ہوا میاں صاحب 12؍اکتوبر کو برسی کے موقع پر نہیں آرہے جب انہیں دوسری بار نکالا گیا تھا۔ وہ جب یہاں سے گئے تھے تو ان کے ’پلیٹ لیٹس‘ خاصے گرگئے تھے مگر ان ساڑھے تین سالوں میں خاص طور پر شہباز صاحب کی حکومت میں اور اسحاق ڈار صاحب کے ’کارناموں‘ کی وجہ سے خود مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی سیاست کی وجہ سے’سیاسی پلیٹ لیٹس‘ اس حد تک گرگئے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان پہلے معیشت پھر انتخاب کا نعرہ لگارہے ہیں ،اب ایسے میں میاں صاحب واپس بھی آئیں گے یا انتظار کریں گے۔
بس دیکھیں اگر آپ 21؍اکتوبر کو انشااللہ واپس آتے ہیں تو خیال کیجئے گا کہ اگر آپ کے دائیں اور بائیں آپ کے بزدار یا بزدار پلس کھڑے ہوئے نظر آئے تو لوگوں کو 16 ماہ یاد آجائیں گے باقی فیصلہ آپ کا ہے۔
جب سیاستدان خود ہی قبولیت کو مقبولیت کا پیمانہ بنالے اور لیول پلینگ فیلڈ صرف اپنے لئے مانگے تو اس سے بڑا انتقام جمہوریت کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے پھر کیسا ووٹ اور کیسی ووٹ کی عزت۔ ’جمہوریت کو عزت دو‘ مقبولیت کو قبولیت ہی جمہوری راستہ ہے۔