جب شریف فیملی پر مقدمات چل رہے تھے اس وقت کے چیف جسٹس نے بیان دیا جو میڈیا کی شہ سرخیاں بنا کہ ایسا فیصلہ دیں گے لوگ 20 سال یاد رکھیں گے۔ شہبازشریف نے جواب میں کہا کہ محترم جج صاحب ہمارے کام اور خدمات دہائیاں یاد رکھی جائیں گی۔ بہرحال چیف جسٹس کے اس بیان کے بعد فیصلہ جو آنا تھا وہ ساری دنیا کو علم ہے۔ مگر میں نے اس وقت کالم میں لکھا تھا چیف صاحب وطن عزیز کی عدلیہ کے فیصلے تو جسٹس منیر سے اب تک لوگوں کو یاد ہیں۔ محترمہ مریم نواز کی بریت پر حمایتی تجزیہ کار اس بات کا رونا رو رہے تھے کہ ان 6 سال، قومی نقصان اور عدل و انصاف کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کون اور کیسے کرے گا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جسٹس منیر کے فیصلے، مولوی مشتاق اور شیخ انوار کے فیصلے، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف فیصلے، آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات اور احتساب برائے انتقام کا ازالہ کیا ہو گیا ہے، بعض نقصانات ناقابل تلافی ہوا کرتے ہیں۔ قومی سیاست، اقتدار کے سنگھاسن، انصاف کے ایوانوں کے فیصلوں جو آئین اور قانون کے خلاف ہوں کے ازالے نہیں ہوا کرتے، نتائج ہوا کرتے ہیں۔ جو عمران خان کی صورت برآمد ہوتے ہیں جس نے قوم میں نفرت کی سیاست، دشنام طرازی، الزام تراشی، ڈھٹائی، بے شرمی، بدزبانی، جھوٹ اور نئے انداز کی کرپشن کی سیاست کی ایسی بنیاد رکھی کہ قوم کا ایک حصہ ذہنی طور پر مفلوج بلکہ مجذوب کر دیا۔ محترمہ مریم نوازشریف پر مقدمہ جھوٹا تھا جبکہ نوازشریف کے دور میں ہی ان کو 17 سکیل کے آفیسروں کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ دل کے مریض قیدی باپ کے سامنے جیل میں ملاقات پر آنے والی بیٹی کو گرفتار کیا گیا۔ مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا نیا اس لیے کہوں گا کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان اور ان سے وابستہ لوگ تو پہلے ہی ظلم کے لیے باکسنگ کی ورزش اور ریاضت کے لیے ریت کے بیگ کا کام دے رہے تھے۔ بھٹو خاندان مٹا دیا گیا، شریف خاندان قید بھی رہا اور جلا وطن بھی۔ بلاول بھٹو سیاست میں آئے تو انہوں نے اپنی شروع شروع کی تقریروں میں جب یہ کہا ”یہ بازی جان کی بازی ہے۔۔ یہ بازی ہم ہی جیتیں گے“ تو نقال اور مخولیے مذاق اڑانے لگے پھر وقت آیا کہ جان کی بازی سے آصف زرداری اور نوازشریف خاندانوں کو گزرنا پڑا۔ ایک برائلر لیڈر ان پر مسلط کر دیا گیا جس نے پونے چار سال (3 سال 7 مہینے 3 دن) ظلم کا بازار گرم کیے رکھا۔ مگر شریف خاندان نے قربانیوں کی نئی داستان رقم کی۔ آصف زرداری سابق صدر اور ان کے خاندان نے دوبارہ انہی کانٹوں بھری راہوں کا چناؤ کیا، وقت نہیں رکتا اور نہ ہی کسی کا اقتدار سدا رہتا ہے۔ عمران دور میں تمام مقدمات جو مخالفین پر بنے وہ جھوٹے اور بے بنیاد تھے۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ پورے ربیع الاول میں عمران کی سیاست کا ذکر نہیں کرنا مگر جھوٹ سن کر سچ نہ کہنا مشکل ہے۔ عمران نیازی انفارمیشن ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب کا لیڈر ہے یہ سہولتیں اور ان پر قبضہ کرنا ہو تو اسرائیل اور بھارت اس وقت حاوی ہیں لہٰذا سعودی عرب، ابو ظہبی، ترکیہ حتیٰ کہ چین اور امریکہ بھی انہی کے مرہون منت ہیں۔ مریم نواز پر جب مقدمہ بنا تھا ہر ایک کو پتہ تھا جھوٹا ہونے کی وجہ سے ختم ہو گا۔ نیازی صاحب رنگ بازی کرتے ہیں کہ یہ اپنے مقدمات ختم کرنے آئے ہیں دراصل تاریخ ثابت کرے گی وہ ملک بچانے آئے ہیں۔ بھٹو صاحب کا مقدمہ بھی تو اس بنچ کے ججوں نے یہ کہہ کر کہ ہم پر پریشر تھا جھوٹا ثابت کیا بلکہ جناب اشرف شریف نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ مولوی مشتاق بھی ایسی رائے کا اظہار کر چکے تھے مگر موت کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ اس ملک کے ساتھ جس نے بھی کیا جو بھی کیا آلہ کار عدلیہ ہی تھی اور اللہ کرے آئندہ کسی بے گناہ کو پھانسی، جلاوطنی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مریم بے گناہ تھیں لہٰذا بری ہوئیں کسی کی دو سال کی محنت ضائع ہو گئی مگر قوم کا جو وقفوں وقفوں سے 75 سال سے ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس کا ازالہ کون کرے گا؟ مریم کو بریت مبارک ہو۔
آئینی طور پر عمران حکومت کے عدم اعتماد کے ذریعے خاتمے کے بعد موجودہ حکومت کو مشکلات کا سامنا تھا اور اب بھی ہے۔ عمران دور میں وطن عزیز عالمی تنہائی، مہنگائی، لاقانونیت، کرپشن، دروغ گوئی اور دشنام طرازی کو بطور پالیسی اپنانے کے نتائج میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اس پر سیلاب کی آفت جس میں انسانی غلطی کا ایک فیصد اور عالمی موسمیاتی تبدیلی کا 99 فیصد حصہ ہے۔ اسی لیے تو وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے امریکہ میں مدد نہیں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ازالہ مانگا ہے۔ چین، امریکہ، نیوزی لینڈ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بلاول بھٹو کی خوب پذیرائی ہوئی مگر میڈیا بھی اس قدر متعصب ہے کہ حالیہ دور میں بلاول بھٹو کے وطن عزیز کو عالمی تنہائی کے حوالے سے میڈیا خاموش ہے۔ پیپلز پارٹی اشتہاری مہم اور خود نمائی پر یقین نہیں رکھتی مگر آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں اپنے امیج کے لیے جدیدیت کو اپنانا ہو گا۔ عمران خان سوشل میڈیا پر سب سے آگے ہیں جو کامیابیاں اور پذیرائی خارجہ محاذ پر بلاول بھٹو کو حاصل ہوئی شاہ محمود قریشی اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ دنیا سابق صدر زرداری، بلاول بھٹو، نوازشریف اور شہبازشریف کی بات پر بھروسہ کرتی ہے۔ دراصل عمران حکومت کی طرف سے جھوٹے مقدمات، انتقام کی سیاست نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست کو زبردست توانائی اور دوبارہ زندگی دی مگر عمران دور کے نتائج نے ان کی سیاست پر حکومت میں آنے کے بعد منفی اثرات ڈالے۔ ایک بات اب طے ہے کہ لوگ عمران خان جو کہیں اس کو جھوٹ سمجھتے ہیں مگر فالوورز دفاع کرتے جبکہ نوازشریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کی بات پر بھروسا کرتے ہیں۔ بہرحال مریم نواز کی بریت اور بلاول کی پذیرائی سیاست میں نئے اور مثبت رجحانات لائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمران اتحاد کے اندر ایک دوسرے کے متعلق تحفظات ہیں لیکن عمران خان اب ڈوبتے سورج کی لاش میں تبدیل ہو چکے ہیں چند ماہ اور بڑھکیں چل جائیں گی پھر سیاست انہی لوگوں میں ہو گی جن میں ہوا کرتی ہے۔ جب سیاست شروع ہو گی تو پی ٹی آئی واپس اپنے سائز میں لوٹ چکی ہو گی دوسری جانب پیپلز پارٹی Come back نہ کرے اور خصوصاً بلاول بھٹو کو ملنے والی پذیرائی کی عوام کو خبر نہ ہو زرد صحافت کے علمبرداروں کے ذریعے بھرپور مشن جاری ہے۔ اس مشن کے پیچھے وہی ہیں جو ہوا کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ، ہر سیاسی جماعت، ہر مذہبی طبقہ اور ہر شعبہ اس وقت چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ قومی ہم آہنگی دور تک نظر نہیں آتی۔ حد یہ ہے کہ ایک قریب الانجام صحافی آصف علی زرداری کی بیماری پر کہتا ہے کہ قوم کو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے کا موقع جلد ملے گا۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ لوگوں کی ذہنی پستی کا کیا عالم ہے۔ سیاسی مخالفت اور ذاتی دشمنی میں قتل کرنے والوں کی مقتولین کی لاشوں پر بھنگڑا ڈالنے والوں میں کچھ فرق نہیں رہا۔