شمائلہ کامران عالم
دنیا ایک عالمی گائوں کی طرح سکڑ رہی ہے۔ مشرق اور مغرب اب کوئی دوردراز کی دنیائیں نہیں رہیں۔ اس وقت ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مختلف مذاہب اور فلسفہ ہائے حیات کے ماننے والے موجود ہیں۔ انسانی تہذیب کا سفر ان مذاہب سے جڑا ہوا ہے اور اخلقیات کی تعلیم (مثلاً محبت، باہمی احترام، برداشت، افراد کے حقوق وفرائض وغیرہ) کم وبیش یکساں ہے۔ ان کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی معاشروں میں اجتماعیت (Plurism) اور تنوع کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ عصرحاضر میں مسلمانوں کا تکثیری معاشروں میں بحیثیت اقلیت ہونا کوئی عجب بات نہیں ہے۔ تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو مکہ، حبشہ یہاں تک کہ مدینہ (فتح مکہ سے قبل) میں بھی مسلمان کئی سال اقلیت میں رہے۔ آنحضورﷺ نے خداداد حکمت کے ذریعے مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی ریاست قائم کردی۔ آپﷺ نے اقلیتوں کو مساوی حقوق دیے، یہ سلسلہ خلافت راشدہ سے ہوتا ہوا خلافت عثمانیہ تک جاری رہا۔
مسلمانوں نے اُندلس، ہندوستان اور دیگر ممالک میں اقلیت ہونے کے باوجود اکثریتی معاشرے میں اپنا تہذیبی وعلمی حصہ ڈالا۔ بیسویں صدی عیسوی تک یورپین ممالک میں یہودی اور مسلم اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا تھا چنانچہ یونائیٹڈ نیشنز کے تحت بین الاقوامی قوانین بنے اور بین الاقوامی معاہدے ہوئے جن کے تحت اقلیتوں کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے واضح حقوق دیے گئے جس کے بعد تقریباً تمام دنیا میں تمام اقلیتوں کے ساتھ قانون کی سطح پر بہتر سلوک ہونے لگا لیکن 9/11 کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویرکشی کی گئی اور اسلاموفوبیا کے اثرات دیکھنے میں آئے۔ پورے یورپ میں مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں بدسلوکی، تشدد، امتیاز اور انتقام کا سامنا کرنا پڑا اور دہشت گردی کے ہر واقعے کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑا گیا۔ وہیں برما کی مسلم اقلیت روہنگیا پر ہونے والے مظالم میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس وقت روہنگیا دنیا کی ان دس اقوام میں شامل ہے جن کا وجود دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا میں بے ریاست لوگوں کا سب سے بڑا گروہ ہے۔ 1982ء کے خودساختہ اور نام نہاد قانون شہریت کے تحت ’’روہنگیا‘‘ قومی زمرے سے خارج کر دیے گئے کیونکہ روہنگیا کو ملک کے 135 نسلی گروہوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا حالانکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ روہنگیا (مسلمان) آبادی اچانک برما میں نمودار نہیں ہوئی بلکہ ارکان میں صدیوں سے آباد ہیں اور یہ عرب، ترک، مغل، ایرانی، پٹھان اور بنگالیوں کی نسل سے ہیں۔ شمالی ارکان جو کہ روہنگیا کا آبائی علاقہ ہے، ایک منصوبے کے تحت راکھائن بدھستوں (مگھوں) کو یہاں لابسایا گیا لیکن بر می مورخین اور سرکاری ذرائع کا اصرار ہے کہ روہنگیا، راکھائن ریاست کے مسلمان بنگالی مہاجروں کی اولاد ہیں (اور یہ حکومت کا وہ مقبول نعرہ ہے جس کی جگالی اکثر وبیشتر حکومتی اہلکار کرتے رہتے ہیں)۔ روہنگیا اصطلاح کا باضابطہ اعتراف 10مارچ 1950ء کو وزیراعظم ’’یونو‘‘ نے کیا لیکن اس کے بعد کبھی بھی سرکاری سطح پر اس اصطلاح کا استعمال نہ کیا گیا۔ میانمار (برما) میں مسلمان ملک کی مجموعی آبادی کا 20فیصد ہیں اور ان میں سے نصف آبادی کبھی اراکان (راکھائن) میں تھی۔
اراکان پر سینکڑوں سال تک مسلم حکمرانی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان علاقوں میں اقلیت کی بجائے جزولاینفک تسلیم کیے جاتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما کی آزادی کے لیے انہوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ چونکہ روہنگیا لوگوں کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا گیا۔ اس لیے ان واقعات کو سرکاری طور پر کبھی ریکارڈ پر نہیں لایا گیا حالانکہ ہاروے کے مطابق ان کی بہادری اور کارناموں کا ذکر برما رزاون میں ضرور ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔
روہنگیا مسلمان امن پسند ہیں اور معاشرہ میں باہمی آہنگی کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بچوں کے نام رکھتے ہوئے دو نام لکھواتے ہیں، نام کا پہلا حصہ اسلامی جبکہ دوسرا برمی مگھ ہوتا ہے۔ جیسے صالح تون سین (Saleh Tun Sein)، احمد موآنگ موآنگ (Ahmed Maung Maung) وغیرہ۔ روہنگین تہذیب وثقافت اور زبان وادب اسلامی تہذیب کے بل بوتے پر پروان چڑھے۔ قدیم دور سے مسلمان مصنّفین اور شعراء روہنگیا زبان میں فارسی وعربی حروفِ تہجی کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اراکانی دربار میں پنپنے والے مشہور روہنگیا شعراء عبدومن یو، شاہ برید خان، عبدالکریم خندکر، قریشی ماگن، دولت قاضی، مردان اور شاہ الاوّل وغیرہ ہیں۔ ان کا قابلِ ذکر ادبی ذخیرہ دریافت ہوچکا ہے۔ روہنگیا ادب محبت کے گیتوں، لوک کہانیوں، بارہ ماسہ، صوفیانہ گیتوں، محاورات، غزلوں، پہیلیوں اور لوریوں (Lullabies) سے بھرپور ہے۔ روہنگیا فنونِ لطیفہ کے رسیا ہیں۔ ان کے مقامی گیت ہیں جس میں خاص طرز کی موسیقی اور گیت شامل ہیں۔ بٹیالی گیت (Bitayali)، جاری گیت (Jari) اور غاضر گیت (Gazir) اپنی مدھر اور رس بھری موسیقی کی بنا پر بہت مقبول ہیں۔ کبھی برمابراڈکاسٹنگ (BBC) سروس سے روہنگیا موسیقی اور روہنگیا آرٹ سے متعلق شروع ہوا کرتے تھے جو کہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ جب زندگی اپنے پورے جوبن پر تھی اور جہانِ امن کے کینوس پر اپنے رنگ بکھیر رہی تھی۔ جہاں بدھا کے دیس میں نفرتوں کی آبیاری کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جب محبت کے گیت گائے جاتے تھے ہاں اسی دیس میں اب صرف فوجی بوٹوں کی چاپ ہے۔ معصوم روہنگیا کی جلی لاشوں کی راکھ ہے اور بس!!! بقول ناصر کاظمی
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
جب روہنگیا میں زندگی پوری رعنائیوں سمیت مسکراہٹیں بکھیرتی تھی تو وہاں کھیلوں (گھری خیلا، بولی خیلا، قونڈا خسیلہ وغیرہ) کے مقابلے منعقد ہوا کرتے تھے۔ جن کا تعلق مختلف موسموں (سرما، گرما، برسات) سے وابستہ ہے۔ اسی طرح کبھی اراکان میں خوشحالی اور فارغ البالی شہرہ آفاق تھی کہ اطرافِ عالم سے غریب لوگ اپنی غربت اور افلاس کو دور کرنے کے لیے یہاں آتے تھے تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنی قسمت آزمائی کرسکیں کیونکہ 1950ء تک اکیاب (موجودہ اسٹیوے) پچاس رائس ملوں کا شہر رہا ہے۔ ایک ایک مل سے لاکھوں من چاول تیار ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیرملکی تجار اور جہازوں کی کثرت آمدورفت سے یہ شہر ایک بارونق بین الاقوامی بندرگاہ بن گیا تھا اور اراکان کا سکہ ریال اور ڈالر سے کم نہیں ہوتا تھا اس لیے اہل خانہ فرقت کو بھی برداشت کر لیتے تھے۔ اس لمبے سفر اور فرقت کی تکلیف کا اندازہ اس لوری سے ہوتا ہے جو خواتین اپنے بچوں کو سلاتے وقت سنایا کرتی تھیں، اس لوری کا متن ان کی مادری زبان میں حسب ذیل ہے:
بوانگ بوانگ روحانگڑٹیاں برونا فان
ترماں رے خویسدے نخاندے فان
ابتدائی برسات میں نئے پانی میں چلانے والے مینڈک آواز لگا کر فرقت اور جدائی کی آگ میں جلنے والی بیویوں کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ اراکان کا سکہ دیگچی کے ڈھکن کے برابر ہے یعنی بہت قیمتی ہے، اے بچو! تمہاری والدہ کو کہہ رہے ہیں کہ نہ روئے کیونکہ عنقریب تمہارا باپ بھاری رقم لے کر آئے گا‘‘۔
لیکن اب یہ قصہ ماضی ہوچکا ہے۔ اس وقت گھر گھر بھوک ناچ رہی ہے۔ بوڑھے، بچے، جوان، خواتین سبھی لوگ غلہ کے ایک ایک دانہ کو ترس رہے ہیں۔ زراعت سے وابستہ مسلمانوں پر اتنی پابندیاں لگا دی گئی ہیں کہ وہ اپنی کھیتوں کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ مختصر یہ کہ اراکانی مسلمانوں کو اتنا بے دست وپا کردیا گیا ہے کہ وہ آئے روز اپنے آبائی علاقہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ بدھ حکومت ان کی جائیدادیں ضبط کر کے بودھوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ضبط شدہ زمینوں پر نئی بدھ بستیوں کا قیام عمل میں لارہی ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ وہاں کے اصل باشندوں روہنگیا کو ملک سے نکال باہر کر کے ان کی زمین وجائیداد پر چٹاگانگ سے نووارد بدھ مگھوں کو مالک بنایا جارہا ہے اور میانمار کی حکومت دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگالی ہیں وہ درانداز اور گھس بیٹھئے ہیں حالانکہ درانداز تو مگھ رکھائن ہیں جو بنگلہ دیش سے روزانہ اراکان گھس کر ڈیموگرافک تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ اقوام متحدہ کے قوانین کی رُو سے جنگی جرم ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر نام نہاد دانشور اور علماء ٹاک شوز، انٹرویوز اور تقاریر میں ان کو بنگالی گردانتے ہیں اور بنگلہ دیش سے دراندازی کرنے والے ثابت کرتے ہیں۔
روہنگیا دنیا کی ایسی قوم ہے جو اپنے ہی وطن میں بیک وقت اجنبی اور مجرم بنا دی گئی ہے۔ انہیں نقل وحرکت کے لیے حکومت سے پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اراکان کا شمالی علاقہ وسیع قیدخانے کی تصویر پیش کررہا ہے۔ بقول فیض
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
روہنگیا کا ایسی بے ساحل کشتیوں پر بسیرا ہے جنہیں دنیا میں کوئی پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انتہاپسند بدھست روہنگیا لوگوں کو کشتی پر سوار کر کے زبردستی سمندر میں دھکیل دیتے ہیں۔ جب وہ کسی بندرگاہ یا ساحل پر پہنچتے ہیں تو انہیں دوبارہ سمندر میں بھٹکنے کے لیے دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ فعل تشدد اور قتل سے بڑھ کر ہے۔ جان بچا کر فرار ہونے والے روہنگیا انسانی سمگلروں کے مکروہ کاروبار کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ سمگلر انہیں تھائی لینڈ، انڈونیشیا یا ملائیشیا لے جاتے ہیں اور وہاں انہیں غلام بنا کر جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔ تھائی لینڈ کے لیے روہنگیا کی سمگلنگ منافع بخش تجارت بن چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ غلام جبری مشقت کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر میانمار کے پناہ گزین ہی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف تھائی لینڈ کا نہیں بلکہ مغربی کمپنیوں کا بھی ہے جو یہاں جھینگیں پیدا کرتی ہیں۔ جھینگیں پیدا کرنے کے علاقوں میں زیادہ تر غلام رکھے جاتے ہیں۔ یہ افراد یا تو مارے جاتے ہیں اور یا پھر غلام کے طور پر بیچ دیے جاتے ہیں جبکہ خواتین اور بچے جنسی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی صورتحال اس قدر دلخراش ہے کہ اس کے سامنے الفاظ اور قلم دونوں کی سکت جواب دے دیتی ہے اور انسانیت کی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اہل مغرب اور امن کا پرچار کرنے والے کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
مقام صد حیرت ہے کہ کبھی اراکان میں روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مگھوں کے درمیان باہمی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری بے مثل رہی ہے۔ باہمی معاملات، حکومتی تعلقات، زراعت، تجارت، صنعت وحرفت وغیرہ میں مسلم وغیرمسلم بلاامتیاز رنگ ونسل اور بلاامتیاز مذہب وملت دوش بدوش چلتے تھے۔ اراکانی سلاطین بودھ اور مسلم رعایا میں ہم آہنگی کی خاطر دو دو القاب (مسلم اور بدھ) استعمال کیا کرتے تھے لیکن شاہ شجاع کے قتل ناحق کے بعد دونوں اقوام کے باہمی تعلقات میں پہلی جیسی ہم آہنگی باقی نہ رہی تھی۔ چنانچہ اپنے لیے سازگار داخلی صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بری بادشاہ ’’بودوپھیہ‘‘ نے حملہ کردیا اور 1784ء میں اراکان پر قبضہ کرلیا۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کا آغاز اسی برمی بادشاہ نے کیا جو ہنوز جاری ہے۔
فوجی آمریت کے خلاف اپنی جدوجہد کی وجہ سے آنگ سانگ سوچی کو 1991ء میں امن کا نوبل انعام ملا تھا۔ 2016ء سے یکم فروری 2021ء تک سوچی کے دور اقتدار میں 70فیصد سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو جس ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ظلم پر تاتما دو کو سوچی کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔ روہنگیا نسل کشی پر سوچی کی خاموشی کا پردہ ہٹانے کے لیے میانمار کے دو بڑے سیاسی اداکاروں پر غور کرنا ضروری ہے:
-1فوج (تاتمادو) -2 بدھ قوم پرست
میانمار (برما) کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ملک میں مارچ 1962ء سے مارچ 2016ء مختلف جرنیلوں کا دور حکومت رہا ہے۔ اگرچہ اس دوران برائے نام جمہوری انتخابات بھی ہوئے لیکن درپردہ حکومت پر تاتمادوہی کا کنٹرول رہا۔ تاتمادو نے ملک کی نہ صرف سیاسی بلکہ معاشرتی، ثقافتی، مذہبی زندگی کو بھی متاثر کیا۔ ملک کا جنوب مشرقی ایشیا کے غریب ترین علاقے میں شمار فوج ہی کا کارنامہ ہے۔ وزارت دفاع کو بجٹ کا بہت بڑا حصہ ملتا ہے جبکہ تعلیم اور صحت کو بہت کم۔ یہ ان سارے ممالک کی کہانی ہے جہاں فوجی آمریت کے سائے ملکوں کی خوشحالی کو چاٹ گئے ہیں۔ تاتمادو عوام کی توجہ ملکی مسائل (بے اطمینانی، فوجی جبر وغیرہ ) سے ہٹانے کے لیے روہنگیا مسئلے کو ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ تاتمادو کی روہنگیا مخالف پالیسیوں نے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ یہیں سے بھکشوئوں اور تاتمادو کے درمیان مفادات کے وہ سوئچ یا تاریں جڑتی ہیں جو روہنگیا کو بے ساحل کشتیاں بننے پر مجبور کرتی ہیں۔
بدھ انتہاپسند طبقہ میں یہ مائنڈسیٹ پایا جاتا ہے کہ میانمار میں بدھ ازم کی مرکزیت لگاتار اور مستقل بڑھائی جائے۔ تھیراواڈا کے مطابق ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک خاص مذہب کو قبول کرلے اور جو کوئی ان کے تنگ نظر مذہبی فلسفہ سے ذرا سا انحراف کرے، وہ پورے سیاسی ڈھانچے کے لیے خطرہ ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ تھیراواڈا بدھاکی اصل تعلیمات کی پیروی کے دعویدار ہیں، انہوں نے بدھا کی اصل تعلیمات سے منحرف ہو کر تنگ نظری اور تشدد پسندی کیوں اختیار کی؟
حالانکہ اس مذہب کی جس خاص بات نے سب سے زیادہ لوگوں کو لبھایا، وہ سب کے لیے امن اور مساوات کی تعلیم ہے۔ وہ مظلوم طبقہ جو عرصہ دراز سے مٹھی بھر لوگوں کے پنجہ جور میں بری طرح جکڑا ہوا تھا، اس نے بدھ مت کے دامن میں پناہ لی۔ اگر میانمار کے موجودہ حالات وواقعات کو دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بدھ مت کا نظریہ امن اب نظریہ لہو۔۔ لہو بن چکا ہے۔ جس نے مہاتما بدھ کے نظریہ امن کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ برما میں بودھ بھکشوئوں کی انتہاپسندانہ سرگرمیوں نے بدھ ازم کے نظریہ امن کو منہ کے بل گرا دیا ہے۔
بدھاکے پرچارکر ویراتھو اور اس قبیل کے دوسرے بھکشو، سکیورٹی فورسز کے تعاون سے مسلم اقلیت پر تشدد کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ ڈھنڈورا امن، سکون اور محبت کا پیٹا جارہا ہے لیکن تخم ریزی نفرت اور فساد فی الارض کی جارہی ہے جو کہ تعلیمات بدھ کے سراسر منافی ہے۔ آج ان کی تعلیمات کے علی الرغم میانمار میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا، جلانا، عصمت دری کرنا بدھ بھکشوئوں کے ہاں مذہبی فریضہ قرار دیا جارہا ہے۔ بدھ اکثریت کے دیس میں مسلم اقلیت کی حالت یہ ہے کہ جس طرح کوڑے کا ڈھیر جلایا جاتا ہے بالکل اسی طرح انہیں اکٹھا کر کے آگ لگا دی جاتی ہے۔
ویراتھو کا اجتماع بظاہر ایک پُرامن منظر لگتا ہے لیکن مسلم روہنگیا کے خلاف اس کا پیغام نفرتوں سے بھر جاتا ہے جبکہ گوتم بدھ کے مطابق نفرت انسان کو مکمل طور پر تباہ کر دیتی ہے اور ہمیں ان سے بھی نفرت نہیں کرنی چاہیے جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ گواتما ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے جہاں محبت کا زم زمہ بہہ رہا ہو لیکن موجودہ دور کا بدھ بھکشو مسلم اقلیت سے نفرت وتعصب کی ایسی آندھی چلانا چاہتا ہے جو محبت کے ہر جذبے کو تہس نہس کر دے۔ دراصل جہاں محبت کی حکمرانی نہ ہو، وہاں خوف کی حکومت ہوتی ہے۔
میانمار کے حالات وواقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہاں پر نسل کشی کا یہ سلسلہ روہنگیا سے دراز ہوتا ہوا دوسری مسلم نسلی گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور اس معاملہ میں بین الاقوامی قوانین کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جارہی۔ اکثریتی بدھ فرقہ تھیراواڈا میں انتقام کی آگ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب اسے اپنی مذہبی اقدار کو پس پشت ڈالنے میں بھی کوئی باک نہیں ہے۔ نسل کشی کنونشن (Genocide Convention 1948) کے مطابق نسل کشی ایک جرم ہے اور یہاں ہونے والے مظالم پر یہ اصطلاح پورا اترتی ہے۔ بین الاقوامی محققین کا کہنا ہے کہ روہنگیا نسل کشی کے ارتکاب کے مضبوط شواہد موجود ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات عزیز ہیں اس لیے وہ روہنگیا کا مسئلہ حل کرنے میں جاندار کردار ادا کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل نے میانمار سے تشدد کو روکنے کی اپیل کی لیکن اس کی طرف سے میانمار پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے 27جنوری 2021ء کو ایک آن لائن اجلاس میں میزبان کا کردار ادا کیا جس میں اس نے روہنگیا بحران کو حل کرنے پر خصوصی زور دیا اور کہا کہ بحران کو موجودہ عالمی وباء کرونا وائرس (Covid-19) کی وجہ سے جلد حل کیا جاناچاہیے۔
گیمبیا دن کا واحد ملک ہے جس نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں میانمار پر روہنگیا کے خلاف نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے درخواست دائر کی جس کے نتیجے میں میانمار کو عالمی سطح پر کسی حد تک ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر گیمبیا جیسا چھوٹا ملک ان بے اماں لوگوں کے حق میں آواز اُٹھا سکتا ہے تو بین الاقوامی برادری بشمول ستاون اسلامی ممالک کا ضمیر کب جاگے گا؟
بین المذاہب ہم آہنگی آج کے دور کا مقبول بیانیہ ہے جسے بہت سی بین الاقوامی تنظیموں نے اپنا رکھا ہے۔ ہمارے بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر آشین سیتا گوسیادائو (Sitagu Sayadaw) اور یوآئے لیون (U Aye Lwin) ایسے چند ناموں میں سے ہیں جو میانمار میں بین المذاہب ہم آہنگی کے علمبردار ہیں اور میانمار کو ایک پُرامن کثیر النسلی اور کثیر المذہبی ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور روہنگیا ان کو ہم نوا بنا کر ان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اول الذکر کے دو چہرے ہیں۔ ایک طرف وہ مکالمہ بین المذاہب میں سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف برمی معاشرے میں بدھ عوام کے ہاتھوں میں ’’One faith-one race‘‘ جیسا متعصب نعرہ تھما دیتے ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے اسلاموفوبیا کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے میں مدد فراہم کی۔ ان حقائق کے باوجود ہم سادہ لوح مسلمان جبر اور عدم توازن سے بھرپور برمی معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی کے خواب دیکھیں تو ہماری سادہ لوحی پر درج ذیل شعر صادق آتا ہے
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عظار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اس پیچیدہ مسئلے کے بارے میں ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ روہنگیا کے ساتھ دشمنی برمی معاشرے میں سینکڑوں سال پرای ہے لہٰذا کسی ایسے معاشرے میں فوری تبدیلی کی توقع کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ مسئلہ راتوں رات حل نہیں ہوسکتا تاہم یہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک وقت میں ایک قدم اُٹھایا جائے۔ برما جیسے تکثیری معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی اور باہمی اتحاد اس بات کے متقاضی ہیں کہ انصاف کی طلب کو اقوام عالم میں پھیلا جائے۔
روہنگیا اقلیت کے بارے لکھنے کی تحریک کب اور کیوں پیدا ہوئی؟
کینیڈا میں کچھ وقت گزارنا شرط ٹھہرا۔ چونکہ پائوں میں سفر تھا اور منزلیں طے کرنا اس کا حصہ تھا۔ جب کبھی نارتھ ویسٹ اسلامک سنٹر جاتی تو وہاں پر مختلف ممالک کی مسلم اقلیتوں سے وابستہ خواتین اور پناہ گزیں افراد سے ملاقات رہتی جن کی آنکھوں اور چہروں سے درد جھلکتا نظر آتا۔ جی چاہتا کہ ان کا درد بانٹوں کہ درد کے رشتے مشترک ہوتے ہیں۔ زبان وبیان کے مسائل کے باوجود میں نے ہر شخص اپنی ذات میں ایک داستان پایا۔ دوسری بار Post Doc کے دوران مجھے جب ٹورنٹو (Canada) میں رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران جب کبھی فرصت ملتی تو میری واحد تفریح Mississauga شہر کے Tim Hortons میں پُررونق اور پُرسکون ماحول میں بیٹھ کر کافی انجوائے کرنا ہوتا تھا۔
٭٭
کافی کی ورائٹی اور مسحورکن خوشبو ہر شخص کو خواہ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی۔ ماضی اور مستقبل سے بندھے تفکرات کو تھوڑی دیر کے لیے زائل کر دیتی۔ من کے اندر کی خاموشی میری توجہ ایک ہی نقطہ پر مرکوز کر دیتی اور اس پُررونق ماحول میں لباس، وضع قطع، باڈی لینگوئج سے ہر شخص کا پس منظر جھلکتا نظر آتا۔ میں یہاں عموماً ایسی جگہ کا انتخاب کرتی جہاں بیٹھ کر مختلف ثقافتوں سے آئے ہوئے لوگوں کا مشاہدہ کرسکوں۔ اس کے علاوہ کینیڈین گورنمنٹ کی طرف سے منعقد کیے جانے والے کمیونٹی کے ایسے پروگرام میں شرکت کی ضرور کوشش کرتی جہاں مختلف النوع معاشروں کے لوگ بھی مدعو ہوتے۔ یہاں میں نے مختلف immigrants کا کلچر، سوسائٹی میں انضمام کی کیفیت، Assimilation اور Integration کا فرق، ہوسٹ سوسائٹی کا جوابی ردعمل اور توقعات جانیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دوسالہ قیام میرا ذہن بنانے کے لیے کافی تھا کہ میں ایک کثیر الثقافتی معاشرے کو جانوں جہاں مختلف معاشروں سے آنے والے اقلیتی گروہ اپنے ممالک سے ایک خاص کلچر کے ہمراہ آتے ہیں تو میزبان معاشرہ انہیں کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اور ہر دو طرف Reception اور Integration کے معیار کیا ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ میں نے مختلف رفاعہی تنظیموں کے ساتھ Volunteer work کیا تو مجھے مختلف ممالک کے ہیومن ایکٹوسٹ سے مسلم اقلیتوں کے حالات کے بارے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ خاص طور پر اوئی غر اور روہنگیا کے دل دہلا دینے والے واقعات نے مہمیز کا کام کیا کہ میں روہنگیا اقلیت کے بارے قلم اُٹھائوں۔ بقول شاعر:
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
لیکن حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوسکا۔
٭…٭…٭
بدھ کا نظریہ اور لہو لہوروہنگیا
11:56 PM, 4 Oct, 2021