اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نور مقدم قتل کیس سے متعلق سیل کی جانیوالی تھراپی ورکس کی عمارت دوبارہ کھلوانے کی درخواست پر چیف کمشنر سمیت دیگر فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تھراپی ورک کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نور مقدم قتل کیس میں تھراپی ورکس کا کوئی طالبعلم یا سٹاف ممبر شامل نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کرتے ہوئے چیف کمشنر سمیت دیگر فریقین سےجواب طلب کر لیا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ تھراپی ورکس بند ہونے سے ادارے کا نقصان بھی ہو رہا ہے اور منفی اثر بھی پڑ رہا ہے۔ 2007ء سے پاکستان 2012ء سے اسلام آباد میں کام کر رہے ہیں، ہمارے تین سو سے زائد طالب علم ہیں۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر تھراپی ورک ڈاکٹر ارم سکندر خان نے وکیل اکرم قریشی کے ذریعے درخواست دائر کی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق سفیر کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے 8 ہفتے کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیدیا تھا۔
ایڈووکیٹ شاہ خاور نے موقف اختیار کیا تھا کہ نور مقدم کیس کا ٹرائل صدارتی آرڈیننس کے تحت سپیشل کورٹ میں ہونا چاہیے، اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ لگتا ہے آپ ٹرائل میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آرڈیننس کی مدت اب ختم ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس کو تاخیر کا شکار کرنا میرا قطعاً مقصد نہیں ہے، ہم نے مقدمے میں کسی غیر ضروری گواہ کو شامل نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم ظاہر جعفر واقعے کے روز اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھا۔ نور مقدم قت کیس سے ان کا تعلق بنتا ہے، مقتولہ کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، اس لئے ان کو ضمانت نہ دی جائے۔
جسٹس عامر فاروق نے ان سے استفسار کیا کہ ضمانت کی درخواست کرنے والوں اور تھراپی ورکس کمپنی کا کیا تعلق ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر کی والدہ تھراپی ورکس والوں کیلئے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی رہی ہیں۔
اس سے قبل پیشی پر ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ پولیس نے چالاکی سے خود کہانی بنا لی ہے، ریمانڈ لینے کے بعد ان کے موکل سے کوئی بیان نہیں لیا گیا۔
ایڈووکیٹ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ پولیس نے جسمانی ریمانڈ میں عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر کوئی پوچھ گچھ نہیں کی، پولیس چالان میں کہا گیا ہے کہ اگر ذاکر جعفر قتل سے پہلے پولیس کو بتا دیتے تو مقتولہ نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس چالان کے مطابق ظاہر جعفر کے والدین نے واقعے میں اعانت کی، اگر پولیس کی اس بات کو مانا بھی جائے، پھر بھی جو دفعات لگائی گئی وہ نہیں بنتیں۔