ایک تو ہمارے ہاں انتخابی عمل اِتنا مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ عام شہری اس میں شریک ہونے سے پہلے سو بار سوچتا ہے، بھاری سرمایہ اگر درکار ہو پھر بھی سیاسی دنگل میں اُترنا محال دکھائی دیتا ہے،بہت سے وسوسے دامن گیر ہوتے ہیں،ناکامی کی صورت میں پیسہ کے ضائع ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے، شکست کے بعد بہت سے دیگر معاملات بھی سر اٹھا لیتے ہیں، انتخابی عمل کیلئے ڈیرہ داری کو آباد رکھنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
ہم جس سماج سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں سارے بل کس ووٹ دینے کے مواقع پر نکالے جاتے ہیں، ہمارے دیہاتی کلچر میں تو اس کی بنا پر بڑے خاندانی جھگڑے جنم لیتے ہیں، حتیٰ کہ بات مقدمات تک بھی پہنچ جاتی ہے، جیتنے والے امیدواران کی غالب تعداد بھی بڑے دل کی مالک نہیں ہوتی اس لئے وہ بھی پرانے بدلے لینے کے لئے میدان میں اتر آتے ہیں،سیاسی انتقامی کارروائیاں اِنکا پہلا ہدف ہوتی ہیں، جیت کے بعد مخالفین کی ہر برائی کو ڈھونڈ کر اِنکے گر د گھیرا تنگ کرنے کے مشن کا آغاز ہوتا ہے، ترقیاتی کاموں میں بھی اس اُصول کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ہر سہولت سے دور رکھنے کی پالیسی وضع کی جاتی ہے، اس ساری مشق میں اصل امتحان تو بیچارے ہارے ہوئے اُمیدوار کا ہوتا ہے جس کو اپنے ووٹرز سے تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ اُن دکھوں کا مداوا بھی کرنا پڑتا ہے جو کامیاب اُمیدوار کی بدولت مل رہے ہوتے ہیں، اس کلچر کو دیکھتے ہوئے ہر اُمیدوار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی جماعت کا ٹکٹ لے جہاں کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوں، یہ اسی کا فیض ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے بجائے الیکٹیبل کی سیاست فروغ پانے لگی ہے۔ یہ صورت حال صرف قومی انتخابات ہی میں نہیں بلکہ ناظمین تک کے الیکشن میں دکھائی دیتی ہے۔
سامراج کا دیا ہوا یہ نظام جمہوریت نہ تو ہمیں آسودگی دے سکا نہ ذہنی غلامی سے نکال سکا ہے، انتخابات کو طریقہ چناؤ سمجھنے کے بجائے ہم نے اِسکو جنگ وجدل کا میدان بنا لیا ہے،ووٹ نہ دینے والوں تضحیک کرنا بھی معمول بن گیا ہے، بالخصوص سماج کا پسماندہ طبقہ اپنی کوئی سیاسی رائے ہی نہیں رکھتا، حلقہ کے بااثر افراد کے حکم سے ہی وہ اپنا قیمتی ووٹ اس جمہوریت کو دیتا جسکی سیڑھی پر قدم رکھ کر ممبرعوامی فلاح کے فیصلے کرنے کے لئے پالیمنٹ براجمان ہوتا ہے، اس میں بڑا کردار اس سیاسی ڈیرہ داری کو حاصل ہے جو عام شہریوں سے ملاقات کا مقام سمجھا جاتا ہے، سندھ،بلوچستان میں اس کا رواج کچھ زیادہ ہی ہے، بعض سیاسی قائدین کے یہ ڈیرے تو ”ٹارچر سیل“کی سی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور سیاسی مخالفین کی تذلیل کے لئے یہ سود مند خیال کئے جاتے ہیں، جرائم پیشہ افراد کو پناہ دینے کی بابت یہ ”نیک شہرت“ بھی رکھتے ہیں۔
برطانوی راج نے جو ہٹو بچو کا کلچر متعارف کرایا تھا وہ ہمارے ہر ادارہ میں شاد اور آباد ہے،مغربی ادارے تو اس سے نجات سے پاچکے ہمارے ہاں گراس روٹ لیول سے اعلیٰ حکام تک سب اس کے رسیا ہیں، اسی لئے سرکاری خزانے سے بھاری رقوم پروٹوکول کے نام پر خرچ کی جاتیں ہیں اس کے مقابلہ میں ہمسایہ ملک میں ایسے بھی اراکین پارلیمنٹ پائے جاتے جو آج بھی کچے گھروندے میں رہائش پذیر ہیں اور سرکاری طورپر کوئی ملازم بھی اِنکی خدمت پر مامور نہیں ہوتا۔یہ بھی عام شہری کی طرح زندگی بسر کرتے رہتے ہیں، لوگوں کے غم اور خوشی میں بغیر پروٹوکول کے شریک ہوتے ہیں۔ عمومی نوعیت کے کام خود انجام دیتے ہیں۔
ہمارا ممبر پارلیمنٹ اس اعتبار سے ذرا بدقسمت واقع ہوا ہے کہ اسے پورے حلقے میں عوامی رابطہ کے نام پر ہر خوشی اور غمی شرکت کرنا پڑتی ہے، یہ لاؤ لشکر اور ہٹو بچو کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہے، معروف گھرانوں کے فنکشن میں جانا لازم سمجھاجاتا ہے، وہ افراد بھی اس فہرست کا حصہ ہوتے ہیں جنہوں نے جری انداز میں مخالفت کر کے ووٹ دیا ہوتا ہے، سرکاری
یا ذاتی گاری کا زیر استعمال ہونا لازمی امر ہے، پورے حلقے کے سفری اخراجات محض جنازہ کی ادائیگی یا شادی میں شرکت یا عیادت کے لئے جانا کس قدر مشکل ترین مشق ہے، لیکن دیہاتوں میں اب یہ”سٹیٹس سمبل“ بنتا جارہا ہے، اس ناگفتہ بہ صورت حال میں اس ممبر پارلیمنٹ کی کیا کیفیت ہو گی جس کو سب کچھ اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے، ہر ممبر اتنے اخراجات کی تاب تو لا ہی نہیں سکتا، پھر اس نوع کی شرکت نہ تو قانونی ہے نہ ہی آئینی نہ ہی انتخابی معاہدہ کا حصہ ہے،ہمارے دیہاتی کلچر میں یہ بھی معروف ہے کہ شکست خوردہ اُمیدوار نئے انتخاب کی آمد سے قبل عوامی رابطہ مہم کے نام پرچہلم او ر قل خوانی کے اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں وہ روحانی سے زیادہ سیاسی فیض پاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے کلیدی راہنما سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اپنی کتاب”عمر رواں“ میں رقم کرتے ہیں کہ کرپشن کتنی آسان ہے، اس کااندازہ اسمبلی رکنیت سے ہوا، نوے کی دہا ئی میں ممبران اسمبلی کو دو کروڑ روپے ترقیاتی کاموں کے لئے گرانٹ ملتی تھی،نقد رقم کے بجائے مرضی کے پراجیکٹ دینے اور مرضی کے سرکاری اداروں سے کام کرانے کا اختیار ہوتا ہے اس لئے بہت سے اداروں نے مجھ سے رابطہ رکھا اور ترغیب دلائی کہ ترقیاتی بجٹ ان کے ذریعہ خرچ کروں، ان سے معلوم ہوا کہ بجٹ دینے والے ممبر کا حصہ 10 سے25فیصد رکھا جاتا ہے اکاؤنٹ نمبر پوچھ کر رقم دیانتداری سے منتقل کر دی جاتی ہے، اس کے بعد صرف 40 فیصد ترقیاتی کام زمین پر ہوتا ہے،باقی رقم ایسے اراکین کی جیب میں چلی جاتی ہے وہ بیٹھے بٹھائے کڑور پتی ہو جاتے ہیں، غالب امکان یہ ہے کہ اس رقم ہی سے اِنکے سیاسی ڈیرے آباد ہوتے ہیں، بہت سے جمہوری ممالک میں ترقیاتی گرانٹ ممبران اسمبلی کو دینے کی بدعت سرے سے موجود ہی نہیں، مقامی نوعیت کے منصوبے شہری حکومتوں کی وساطت سے پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے سیاسی خرافات میں اہم کردار سیاسی ڈیرہ داری کا بھی ہے تو بے جا نہ ہوگا، ماضی میں یہ مقامات پوسٹنگ، تقرری اور تھانہ کلچر کو پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں، فی زمانہ اس میں کوئی انقلابی تبدیلی بھی نہیں آئی ہے،ایسے معاملات کے لئے اب بھی یہ ڈیرے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر سیاسی جماعتوں کا نیٹ ورک انتہائی نچلی سطح پر قائم اور منظم ہو تو ترقیاتی بجٹ میں بدعنوانیوں سے نجات مل سکتی ہے،ہر ریاستی ادارے سے شہری کو انصاف مل سکتاہے، کسی کو بھی سیاسی انتقام کا نشا بنایا نہیں جا سکتا،مقامی سطح کی قیادت ہی عوام کے دکھ،غم اور خوشی میں شامل ہو سکتی ہے، اس کے لئے کسی پروٹول کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اراکین پارلیمنٹ کے فرائض منصبی میں تو قانون سازی ہی کر نا ہے، ترقیاتی کاموں کے نام پر بجٹ کی تقسیم نے تو کرپشن کو آسان تر کر دیاہے،جو ممبران اسمبلی کے ڈیروں کی بڑی سپلائی لائن ہے۔شہروں میں ڈیرہ داری کلچر کے اثرات قدرے کم ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ترقیاتی کاموں کیلئے اصول وہی کارفرما ہے جس کی طرف محترم فرید احمد پراچہ نے اشارہ کیا ہے۔