وقت فتنہِ دجال سے گزر رہا ہے زمانہ مال ومتاع اور جاہ و حشم کی حرص و ہوس کے پیچھے بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار ہے جہاں کسی کو طمانیت،امن و عافیت،صبر و قرار اور سکون میسر نہیں۔امت ِ مسلمہ آج جن مصا ئب و مشکلات کا شکار ہے وہ کسی دیدہ ور سے پوشیدہ نہیں۔ہر دن نت نئے فتنے لیے جلوہ گر ہو رہا ہے اورہر رات نئی ظلمت لیے۔نبی کریمﷺ نے دورِ حاضر سے چودہ سو سال پہلے ان حادثات و واقعات کی نشاندہی کر دی تھی۔ہمیں اب سمجھ جانا چاہیے کہ دو سال پہلے والی دنیا کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے گی اب ذہنی طور پر خود کو تبدیل کرنے کا وقت ہے۔مشکل حالات میں اللہ کویاد کر کے صبر کے ساتھ جینا ہو گا۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنے والا مسلمان کبھی مایوس اور ذہنی مریض نہیں ہو سکتاضرورتِ وقت ہے کہ اپنی نسل کہ آنے والے دور کے مطابق تیار کیا جائے۔حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے کرو کہ آنے والے دور کے لیے تیار ہوں۔اس وقت دنیا آخری فتنوں کی طرف داخل ہو رہی ہے ہم فتنہِ دجال،مناہمت الکبرہٰ اور غزوہِ ہند کی طرف چل رہے ہیں۔شیطان کا نظام پوری دنیا سے مسلمان،انسانیت اورشریعت کو ختم کررہا ہے اور دجالی ٹولہ مسلمانوں کو غلام بنانے کی کوششوں میں ہے۔مسلمان اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔دجالی ٹولہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دور کر رہاہے لیکن سچا مسلمان فاقہ کشی،بھوک اور افلاس میں بھی دامنِ مصطفی ﷺ نہیں چھوڑتا۔
کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کرونا وائرس سے معیشت تباہ ہو گئی ہے۔تقریباً بیس فیصد سے زائد لوگوں کے کاروبار اور نوکریاں بالکل ختم ہو گئی ہیں۔ بہت تیزی سے بدلنے والے حالات کی تبدیلی کو بدقسمتی سے ہمارے علما، لیڈر، سیاست دان اور حکمران سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ اپنی قوم کو آنے والے دور کے لیے ہمیں کس طرح سے تیار کرنا ہے۔ جہاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری دنیا میں بغاوتیں برپا ہیں خود یورپ و امریکا کا حال تباہی کی طرف ہے۔ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے سڑکوں پر احتجاج و فسادات ہو رہے ہیں، آن لائن تعلیم کے نام پر تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کر دیا ہے، یونیورسٹیاں، کالج و سکول بند ہیں۔ مذہب اور دین کو پابند کر دیا گیا ہے، حج پر پابندی لگا دی ہے، مساجد و عبادت گاہوں میں سوشل فاصلے کے نام پر شریعت کو ترک کر دیا گیا ہے۔ اس وقت گلوبل ریسیٹ کے نام پر دنیا کا نظام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ کرونا وائرس سے ہونے والی اموت کم ہیں اور ذہنی مریض زیادہ بن گئے ہیں اور شاید یہی مقصد حاصل کرنا تھا۔ ویکسین نالگوانے پر لوگوں کوگرفتار کرنا اور اشیائے ضروریات کی خرید و فروخت پرپابندی لگانا نظامِ ظلم ہے۔آنے والا دور اس سے زیادہ مشکل نظر آ رہا ہے جن فسادات، قحط اور جنگی حالات کا آنے والے وقت میں سامنا ہو گا وہ ہماری نئی نسل برداشت نہیں کر سکے گی۔ 2000 کے بعد پیدا ہونے والے تمام بچے نرم و نازک ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔ اس جنریشن سے صرف ایک انٹرنیٹ لے لیا جائے تو یہ نسل آدھی پاگل ہو جائے گی مشکل حالات کی سختی برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ حکمرانِ وقت کو چاہیے کہ قوم کو حضورﷺ کی تعلیمات کے قریب کریں۔ قربتِ رسولﷺ ہی اس سب کا واحد حل ہے۔نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس جنریشن کی زندگی نازکی اور ہائی ٹیکنالوجی میں گزری ہے اگر یہ لے لی جائے تو یہ ذہنی مفلوج ہو جائیں گے اور دجال کے فتنوں کا سامنا نا کر پائیں گے۔ شام، لیبیا، عراق، کشمیر، فلسطین اور افغانستان کی حالت دیکھ لیں مسلمانوں کو سخت ترین دور سے گزرنا پر رہا ہے۔ ضرورتِ وقت ہے سادہ خوراک کا استعمال، گھروں میں ضرورت کی سبزیاں اگائیں، مرغیاں پالیں، سولر سے بجلی پیدا کریں، پانی کا نظام گھروں میں ہو۔ اسلام سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کا دین ہے۔ درحقیقت سادہ طرزِ زندگی ہی اسلام کا وہ پیغام ہے جو انسان کی فلاح اور کامرانی کا ضامن ہے۔ ایک مجاہدانہ زندگی گزارنے کے طریقے اپنائیں ورنہ فتنہِ دجال کے جال میں پھنستے چلے جائیں گے۔دشمن عناصرآنے والے وقت میں پوری دنیا کی فوڈ سپلائی چین خراب کریں گے، خوراک کی کمی لائیں گے پھر جنگیں برپا کریں گے۔ دنیا خطروں میں گھری ہوئی ہے افغانستان میں شکست کے بعد دشمن ہندو بنیا اور یہودی ٹولہ پاکستان کو گھیرے ہوئے ہے۔ غزوہِ ہند کافروں کیلئے سزا، منافقوں کیلئے آزمائش اور مومنین کیلئے خوشخبری اور بشارت ہے اس وقت امریکا پوری شدت سے پاکستان پر الزام لگا کر پابندیاں لگانا چاہتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی اورجنگی تیاریاں جنون کی حد تک ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں فوجی طاقت کے ذریعے مسلمانوں کی خود مختاری کوختم کرنا کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ