لال بہاری بھارتی شہری ہیں، یہ انڈیا کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے، گھر میں غربت کا بسیرا تھا، والد نے سات سال کی عمر میں ساڑھیاں بنانے والی فیکٹر ی میں بھیج دیا، انہوں نے کام سیکھا اور بیس سال کی عمر میں اپنی ٹیکسٹائل ورکشاپ کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ ورکشاپ کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اورلال بہاری خالی ہاتھ تھے، انہوں نے گاؤں میں موجود والد کی زمین پر بینک سے قرض لینے کا فیصلہ کیا، یہ مقامی پٹواری کے پاس گئے اور والد کی زمین کے کاغذات نکلوائے،بڑی تگ و دو کے بعد کاغذات تو مل گئے مگر ساتھ ایک ڈیتھ سرٹیفیکٹ بھی ملا جس کے مطابق لال بہاری مرحوم ہو چکے تھے۔ زندہ لال بہاری پٹواری کے سامنے کھڑے تھے مگر پٹواری نے زندہ تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ لال بہاری نے گاؤں سے تحقیق کی تو پتا چلا اس کے کزنوں نے زمین ہتھیانے کے لیے اسے مردہ ڈکلیئر کر دیا تھا۔ لال بہاری کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا،قرض نہ ملنے کی وجہ سے اسے مجبوراً ورکشاپ بند کرنا پڑی اور اس کا خاندان دوبارہ سڑکوں پر آ گیا۔ لال بہاری کو اندازہ ہوا اس فراڈ میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہزاروں لوگ اپنے رشتہ داروں کے ڈسے ہوئے ہیں، چنانچہ اس نے خاموش بیٹھنے کے بجائے جد وجہد کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس نے ”ایسوسی ایشن آف لیونگ ڈیڈ آف انڈیا“ کے نام سے تنظیم رجسٹرڈ کرائی اور زندہ مردوں کو ڈھونڈنا شروع کر دیا، اس نے مختلف جگہوں پر جلسے کیے، لوگوں سے میٹنگز کی اور صرف ریاست اترپردیش میں ایسے چالیس ہزارا فراد کو اکٹھا کر لیا جنہیں ان کے رشتہ داروں نے مردہ قراردے کر ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ لال بہاری نے اپنے نام کے ساتھ ”مریتک“ (مرحوم) کا اضافہ کر لیا تاکہ میڈیا کو اپنی جد وجہد کی طرف متوجہ کر سکے مگر یہ ناکافی تھا، اس نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر الیکشن کمیشن نے آفیشلی مردہ ڈکلیئر کیے گئے انسان کو الیکشن لڑنے کا حق دینے سے انکا رکر دیا۔لال بہاری نے اس کا دلچسپ حل نکالا، اس نے ایک لڑکے کو اغوا کر لیا تاکہ پولیس اسے زندہ ڈکلیئر کر کے اس پر اغوا کا مقدمہ درج کرے اور اس طرح وہ زندہ ثابت ہو جائے لیکن پولیس کو ساری کہانی کا اندازہ ہوا تو پولیس نے بھی مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ ہر طرف سے
مایوسی کے بعد لال بہاری اعظم گڑھ کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش ہوئے، مجسٹریٹ نے کیس کو ازسر نو دیکھنے کا فیصلہ کیا اور بالآخر اٹھارہ برس بعد لال بہاری کو زندہ ڈکلیئر کر دیا۔ لال بہاری انڈیا کے ان لاکھوں افراد میں سے ایک ہیں جو مردہ ڈکلیئر کیے جانے بعد آج بھی نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ لال بہاری کی تنظیم ”ایسوسی ایشن آف لیونگ ڈیڈ آف انڈیا“ نے ہزاروں ایسے افراد کی مدد کی جو آفیشلی طور پر مردہ ڈکلیئر کر دیے گئے تھے، ان میں سے کئی ایسے تھے جو انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر کے سچ میں مرحوم ہو چکے تھے۔ لال بہاری اب سال میں دودن اپنا برتھ ڈے مناتے ہیں، ایک ان کا اصلی جنم دن اور دوسرا جس دن عدالت نے انہیں زندہ قرار دیا تھا۔ اصلی جنم دن پر وہ اصلی کیک کاٹتے ہیں اور عدالتی جنم دن پر وہ گتے کا بنا نقلی کیک کاٹتے ہیں جو اندر سے خالی ہوتا ہے، یہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تا کہ ان سرکاری افسروں کو احساس دلا سکیں جو اندر سے خالی، بے حس اور بے ایمان ہوتے ہیں اور یہ اس خالی کیک سے اپنے سماج کے کھوکھلے پن آشکار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی زندگی پر انڈیا میں فلم بھی بن چکی ہے اور یہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے محسن بھی ہیں، اب بھی ہزاروں لوگ انہیں مدد کے لیے کال کرتے ہیں مگر اب یہ عمر کے ہاتھوں مجبور ہیں اور مزید کام کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان میں بھی سیکڑوں زندہ مردے موجود ہیں، یہ گزشتہ بیس بیس سال سے مرحوم ہو چکے ہیں مگر یہ آج بھی نارمل زندگی گزار رہے ہیں، یہ لال بہاری کی طرح کے غریب مردے نہیں ہیں بلکہ یہ موٹے تازے، کھاتے پیتے اور اچھے خاصے مالدار مردے ہیں، بلکہ یہ اس حد تک مضبوط اور طاقتور ہیں کہ یہ پورا ملک چلا رہے ہیں، یہ مردے اسمبلیوں کے اندر بھی بیٹھتے ہیں، بیرون ملک وزٹ بھی کرتے ہیں، حکومتی مراعات بھی لیتے ہیں، پروٹوکول بھی انجوائے کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ملک سے باہر بھی بھاگ جاتے ہیں۔ ان کا صرف وجود زندہ ہے ان کے ضمیر اور نظریات مکمل طور پر مر چکے ہیں اور ضمیر اور نظریات کی موت جسمانی موت سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں، یہ وہ سیاست دان، ایم این ایزاور ایم پی ایز ہیں جو دو ہزار دو کے الیکشن میں پی ایم ایل چھوڑ کرپی ایم ایل کیو میں شامل ہو گئے تھے، ان مرحومین کی تعداد ایک سو چالیس تھی۔ پھر دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں نوے لوگ مرحوم ہوئے جو پی ایم ایل کیو چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہوئے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ایک سو اکیس لوگ مرحوم ہوئے جو پی پی پی چھوڑ کر پی ایم ایل میں شامل ہوئے، دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں مر حومین کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور یہ سب کے سب پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ دو ڈھائی سو لوگ اصل مرحوم ہیں، یہ اس سسٹم کا ناسور ہیں اوریہ اس ملک اور قوم کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے، اگر یہ ملک اور قوم آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ ان مرحومین کی سیاست کو دفن کر کے ان کا جنازے پڑھا دے۔ ان مرحومین میں جاگیر دار بھی ہیں، قبضہ مافیا بھی، سرمایہ دار بھی اور پریشر گروپوں کے سرغنہ بھی، یہ اس ملک کے اصل دشمن ہیں، یہ ہر حکومت کے ساتھ شامل ہو کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور اپنے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیتے۔ یہ ہوا کے ساتھ رخ بدلنے والے مرحوم ہیں اور یہ وزارتیں حاصل کرنے کے لیے پاؤں تک پڑ جاتے ہیں۔ انہیں ملک و قوم کا مفاد عزیز نہیں بلکہ یہ صرف اپنے مفادات، کارو بار اور بینک بیلنس بڑھانے کے لیے سیاست میں انوالو ہوتے ہیں۔ آج ہمیں بھی کسی لال بہاری کی ضرورت ہے جو ”ایسوسی ایشن آف لیونگ ڈیڈ آف پاکستان“ کے نام سے ایک نئی جد وجہد کا آغاز کرے، جو پاکستانی سیاست سے ایسے تمام مرحومین کو نکال دے جو پچھلے بیس سال سے مرحوم ہو چکے ہیں، یہ ایسے تمام زندہ مردوں اور ان کی سیاست کو دفن کر دے جو ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کو گندا کر رہے ہیں۔ ایسا لال بہار ی جو اس ملک اور اس کے کروڑوں عوام کو زندگی کی امید دلائے، جو نظریاتی اور باضمیر لوگوں کی آواز بنے اور جو اس ملک او ر قوم کو سال میں دو بار جنم دن منانے کا موقع دے۔ ایسا جنم دن جس میں بائیس کروڑ عوام ملک کر گتے کے کیک کاٹیں اور ان زندہ مردوں کے کھوکھلے اور خالی پن کو آشکار کریں۔ یقین جانیں جب تک یہ قوم اور ملک ان مرحومین سے جان نہیں چھڑائی گی یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے انہی زندہ مردوں کے ساتھ ملک چلانا چاہتے ہیں یا ہمیں اس ملک کے لیے باضمیر اور نظریاتی لوگوں کا انتخاب کرنا ہے۔