اسلام آباد : وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے کہا ہے کہ احتساب عدالت میں جاری ریفرنسز سپریم کورٹ کی ہدایات پر دائر کئے گئے ہیں جن کی مانیٹرنگ عدالت عظمیٰ کے جج کر رہے ہیں. ساری کارروائی کی مانیٹرنگ ہو رہی ہے پر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے اسحاق ڈار کی طرف سے دائر کی گئی درخواستیں یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ یہ ریفرنس سپریم کورٹ کے حکم پر دائر کئے گئے ہیں اس لئے وہ اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے لگتا ہے کہ ملک میں نئے قانونی ضابطے بنائے جا رہے ہیں۔ سب وکلاء سوچ رہے ہیں کہ کیا ان کی پریکٹس کے دوران کبھی ایسا ہوا ہے کہ نیب کے ریفرنسز پر سپریم کورٹ کا مانیٹرنگ جج مامور ہو۔ انہوں نے کہا کہ انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہمیں چارج شیٹ تک نہیں ملی۔ چارج شیٹ کی تصدیق شدہ کاپی تو کیا نقل بھی موجود نہیں ہے لیکن اس صورتحال میں ہائیکورٹ نے اسحاق ڈار کے وکلاء سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ جائیں۔ مقدمات نمٹانے کا اس سے زیادہ تیز رفتار طریقہ کار کس کیس میں اپنایا گیا ہے جس کو نوازشریف اور اسحاق ڈار بھگت رہے ہیں۔ نوازشریف، ان کے بچے اور اسحاق ڈار انصاف کے منتظر ہیں اور اسی طریقے سے انصاف چاہتے ہیں جس طرح 20 کروڑ لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔
احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انوشہ رحمن کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے اندر مشکوک سرگرمیوں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ نوازشریف کی 2 اکتوبر کو پیشی کے موقع پر رینجرز کی موجودگی کا کیا مطلب تھا۔ رینجرز کی تعیناتی کس نے کی؟ مجھے نہیں علم کہ وہ طاقتیں چلی گئی ہیں یا عدالت میں موجود ہیں۔ ویڈیو بہت سارے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کی درخواستیں ہائیکورٹ سے مسترد ہونا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ نیب کی طرف سے بھی یہ مانا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس نامکمل اور عبوری ہے لیکن ہائیکورٹ نے سماعت کے خلاف درخواست مسترد کر دی اور اب ہم سپریم کورٹ جانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ کا سفر 10 دن میں طے ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظلم و جبر کے ضابطے ہم نہیں مانتے۔ اس سارے عمل کو ہم آگے لے کر چلیں گے۔
انوشہ رحمن کا کہنا تھا کہ عدالت میں آج جو گواہ پیش کیا گیا اس پر جرح ہوئی ہے جبکہ اسحاق ڈار کو دستاویزات کے دیئے گئے 23 والیوم میں سے 11 والیوم جے آئی ٹی رپورٹ ہے اور اسحاق ڈار کے حوالے کئے گئے مواد میں سے 90 فیصد مواد غیرمتعلقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب والے درختوں کی تصاویر کی کاپیاں بھی ساتھ لگاتے رہے ایسی دستاویزات دی گئیں جو قانونی شہادت پر پورا نہیں اترتیں۔ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج کی موجودگی میں درخواستیں مسترد ہوئی ہیں۔ کیا نوازشریف اور اسحاق ڈار کے خلاف نئے قانونی تقاضے بنائے جا رہے ہیں؟ یہ سوالات میڈیا اور عوام اٹھا رہے ہیں۔
احتساب عدالت میں حساس اداروں کے اہلکاروں کی ویڈیو کے حوالے سے کئے گئے سوال پر انوشہ رحمن نے کہا کہ یہ بات کسی اور کو نظر نہیں آ رہی جن اداروں نے انصاف فراہم کرنا ہے انہیں دیکھنا چاہئے کہ کہیں ان پر سوالات تو نہیں اٹھیں گے۔ گذشتہ سماعت پر رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں وزیر داخلہ انکوائری کرا رہے ہیں جس کی رپورٹ سب کے سامنے آ جائے گی۔