اسلام آباد: 90 روز میں انتخابات کرانے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آئینی آزادی کو کچھ لوگ جھوٹا بیانیہ بنانے اور غلط معلومات پھیلانے کیلئے بطور لائسنس استعمال کرتے ہیں۔
10 صفحات پر مشتمل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔آئین پاکستان نے آرٹیکل 19 میں اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔اظہار رائے کی آئینی آزادی کے غلط استعمال کا مقصد جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے۔ پیمرا آئینی خلاف ورزی پر پابندی عائد کرتا ہے۔جمہوریت کی بہتری کیلئے فیئر کمنٹ ہونا چاہیے۔
فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی۔ صدر مملکت نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ دینے کے پابند تھے۔عام انتخابات کا انعقاد نوے روز میں اس لیے نہ ہو سکا کہ ساتویں مردم شماری نوٹیفائی ہو چکی تھی۔آئینن کے تحت نئے انتخابات سے پہلے ساتویں مردم شماری کا ہونا ضروری تھا۔
یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے سوچنے کی آزادی، پرائیویسی کا حق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق خطرے میں پڑتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے ناصرف جمہوری اداروں پر عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے بلکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات پر بھی حرف آتا ہے، غلط معلومات کی وجہ سے ڈیجیٹل وائلنس اور جبر میں اضافہ ہوتا ہے۔
حکمنامہ کے مطابق سپریم کورٹ سچائی کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کی ستائش کرتی ہے، معاملے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے کا اردو میں بھی ترجمہ جاری کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی مشاورت سے 8 فروری کو انتخابات کرانے پر اتفاق ہوا اورالیکشن کمیشن کے مطابق 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہوجائے گا۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن پروگرام کا اعلان کیا جائے گا،انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے اٹارنی جنرل کی کوشش قابل ستائش ہے،اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونے چاہیں تھے، لیکن ساتویں مردم شماری کے باعث یہ ممکن نہیں تھا۔
فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کو نئی مردم شماری کی منظوری دینے کیلئے 4 سال لگ گئے،صدر کا 3 اپریل 2022 کو اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ غیر آئینی تھا،وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا آئین میں درج ہے۔
چیف جسٹس نے انتخابات کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین واضح ہے کہ ممبران اسمبلی کی اکثریت تحریک عدم اعتمادمنظورکر سکتی ہے،تحریک عدم اعتمادآنےکےبعد وزیر اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نہیں دے سکتے،صدر کی جانب سے 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنےسےملک میں سیاسی بحران پیداہوا۔
سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں قرار دیاکہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر سیاسی بحران کے پیش نظر از خود نوٹس لیا اور تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا اور اس فیصلے میں ایک جج نے لکھا کہ صدر کا اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔