ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اِس وقت کس کی قربت اور صحبت میں ہمارے کپتان ہیں اور کون سی ہستی سے یہ مشورہ لیتے ہیں،کس کی مشاورت سے انھوں نے مہنگے ترین لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے،جس نے پانچ رو زمیں آدھا سفر بھی طے نہیں کیا، دوران مارچ صحافی خاتون کے علاوہ کارکنان کی موت کا بھی دکھ اٹھانا پڑا،اگرچہ یہ بھی دعویٰ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر ہیں مگر ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا ہے،تاہم مارچ کے دوران ہلاکتیں بد نظمی کا پتہ دیتی ہیں۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ زوجہ محترمہ ہی اِنکی مشیر خاص ہیں، انکی عاملانہ برکات نے ان سے وہ کام بھی کرائے ہیں جس کا تصور ایک باشعور فرد نہیں کر سکتا،جس میں بڑا واقعہ تو درگاہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا ہے، انکی گورننس کے دوران کچھ باتیں زد عام تھیں کہ بطور وزیراعظم وہ صرف انھیں ناموں اور اعداداو شمار کو ترجیح دیتے، جسکی ہدایت خاتون خانہ سے ملتی ہے،ملک کے بڑے صوبہ کی ناقص طرز حکمرانی کے پیچھے بھی یہی عاملانہ برکتیں تھیں، بھر پور تنقید کو در خود اعتنا نہ سمجھااور پھر یہ وقت آن پڑا جن کو چور ڈاکو کہتے تھے ان سے ہی فیض یاب ہونا پڑا۔ مشیران کی کرم فرمائی ہے کہ کپتان بیک وقت توشہ خانہ، توہین عدالت، فارن فنڈنگ میں عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو مطلوب ہیں،اب تو بطور چیئرمین کر ان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کے لئے انکی نااہلی کو بنیاد بنا کر عدالت عالیہ میں ایک شہری نے درخواست گذار دی ہے، اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے کہ اِنکے دور اقتدار میں انکے مخالفین عدالتوں کی یاترا کیا کرتے تھے، اب یہ”خوش نصیبی“ ان کے حصہ میں آئی ہے۔حالیہ ارشاد سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بڑے قلب سلیم کے مالک ہیں،ان میں تنگ نظری پائی ہی نہیں جاتی، اپنے سیاسی مخالفین کو انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انکی تحریک ختم ہو جائے گی، وہ مارچ کو الیکشن تک بھی جاری رکھ سکتے ہیں،گفت و شنید سے تو ایک ہی مطالبہ سامنے آتا ہے کہ سرکار جلد از جلد الیکشن کی تاریخ دے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ محض یہ کہنے کے لئے حضور سفر کی صعوبتیں کیوں برداشت کر رہے ہیں،حالانکہ یہ مطالبہ بھاری بھر پریس کانفرنس او ر کل جماعتی میٹنگ کے انعقاد کی مار تھا۔ مگر انھوں نے عوام کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا ضروری سمجھا ہے۔ذرائع کہتے ہیں کہ لاکھوں روپے کے اخراجات روزانہ کی بنیاد پر اس سیاسی ”عیاشی“ پر اُٹھ رہے ہیں،اگر وہ لاعلم ہیں تو ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ سردیوں کی آمد آمد ہے اور متاثرین سیلاب تاحال کھلے آسمان تلے مجبوری کے حالت میں موجود ہیں، اگر یہی پیسہ سردی کے تحفظ کے لئے اُن پر خرچ کیا جاتا تو اس کے بہت مثبت اثرات کپتان کی سیاست پر پڑتے،مگر یہ ان کا ایجنڈا ہے ہی نہیں،اللہ نے انھیں صرف چوروں اور ڈاکوؤں کے پیچھے لٹھ لے کر چلنے کو کہا ہے، مگر برا ہو عوام کا کہ ان پر بھی شہر لاہور میں چور چور ہونے کی پھبتی کسی گئی ہے۔موصوف کے فالورز کو یہ زُعم بھی ہے، کہ انھوں نے حالیہ انتخابات میں قریباً تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے،الیکٹیبل سیاست کا ہی یہ تسلسل ہے،پارلیمنٹ میں حقیقی تبدیلی اُس روز آئے گی جب عام شہری اس کا ممبر بنے گا، لیکن جیت کر بھی پارلیمنٹ کا رخ نہ کرنے کا جو ”اعزاز“کپتان نے حاصل کیا ہے اسکی کوئی مثال پوری پارلیمانی تاریخ میں نہیں ملتی،اگر وہ صرف مقبولیت کے خمار میں مبتلا ہیں تو الگ بات ہے مگر عوامی مسائل کے حل اور قانون سازی کے لئے اس سے بہتر اور کوئی فورم نہیں ہے۔ الیکشن کے جلد انعقاد کے مطالبہ کے جواب میں موجودہ وزیراعظم نے میثاق معیشت اور جمہوریت پر مذاکرات کرنے کی انھیں دعوت دی حالات کا یہی تقاضا ہے،قوم آخر کب تک بلی اور چوہے کا کھیل دیکھے گی،کب اِن کے لئے پارلیمنٹ میں بات ہوگی، کب بے روزگاروں کا دکھ سنا جائے گا، کب بے گھر افراد کے لئے آواز اٹھائی جائے گی،کسان مزدور کی پریشانیوں کو کب زیر بحث لایا جائے گا۔گذشتہ پارلیمانی مدت میں تو چور اور ڈاکو کے علاوہ کچھ سننے کو ملا ہی نہیں ہے،بقول کپتان وہ چور اور ڈاکوؤں سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتے اگر یہی جذبات سرکار کے بھی ہوں تو عوام کی پھر کون سنے گا؟بسا اوقات یوں دکھائی دیتا ہے کہ آپ بہت کچھ لاعلمی میں وہ کہہ جاتے ہیں جو آپ کے بیانیہ کے بالکل برعکس ہوتا ہے، اپنے تازہ ارشاد میں آپ نے اپوزیشن کو چور اور ڈاکو کہنے کا ملبہ بھی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا کہ انکے کہنے پر آپ کو یہ کہنا پڑا، اس معصومیت پر مر جانے کو جی چاہتا ہے،آپ ایک لمحہ کے لئے خود کو ماضی کا وذیر اعظم ہی سمجھ لیں تو چار سال کے دور اقتدار میں بھی آپ پر اس بابت”کشف“ نہ ہوا کہ الزامات کی تصدیق ہی کر لی جائے، وہی گردان آپ کر رہے ہیں،مقتدر ادارہ کے ذمہ داران نے پریس کانفرنس کے دوران جو الزامات آپ پر دھرے ہیں،دھیرے دھیرے آپ انکو مانتے جارہے ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ تبدیلی کا ڈرامہ آپ نے محض اقتدار حاصل کرنے کے لئے رچایا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔آپ قوم کا دکھ اور درد رکھتے تو اپنی ذات کو پیچھے رکھ کر سوچتے، بااثر افراد کو ایوان تک پہنچانے کے بجائے پڑھے لکھے نوجوانان کو جنہوں نے آپ کی صورت میں مسیحا دیکھا تھا انکو پارلیمنٹ کا رکن بناتے چاہے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑتا، آپ اصولی سیاست کی طرح ڈال کر تاریخ میں نام رقم کرتے مگر بڑھتی عمر کے خوف میں آپ مبتلا تھے، اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کر کے مسند اقتدار تک جا پہنچے، ”جھوٹے مسیحا“ ثابت ہوئے۔ اب جبکہ آپ کے سرسے دست شفقت اٹھ چکا ہے تو آپ نے واویلا شروع کردیا ہے،منظم ادارے پر الزامات لگا کر ملک دشمن قوتوں کو ان پر بات کرنے کا موقع دیا ہے۔کچھ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ لانگ مارچ میں سست روی کا ایک سبب تو یہ ہے کہ عوام آپ کی توقعات سے کم شریک ہوئی ہے، دوسرا یہ کہ آپ اس وقت وفاقی دارلحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں کہ جب نئے چیف کی تعیناتی کا عمل قریب تر ہو،حالانکہ یہ خالصتاً آئینی معاملہ ہے اس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانا کسی سیاسی لیڈر کے لئے مناسب نہیں ہے، امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے اس وژن کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ ایک آدمی کو ڈی چوک سے اٹھا کروزیر اعظم بنائیں اور اچانک فیڈر چھین لیں تو اس کا رونا بنتا ہے۔گذشتہ ستر سال سے عوام اپنے دکھوں سے نجات کے لئے اصلی مسیحاؤں کی طرف دیکھ رہی ہے،مگر ہر بار جھوٹی مسیحائی ہی اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ خود کو مقبول لیڈر سمجھنے والے فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ریاست کے تمام سٹیک ہولڈز کے ساتھ مل بیٹھیں اور عوام کو اس عذاب سے نکالیں، جو بے روزگاری، لاقانونیت، قبضہ مافیاز، قانون کی عدم حکمرانی، دولت کی غیر مساوی تقسیم، فرسودہ نظام تعلیم، ڈوبتی معیشت کی صورت میں وہ جھیل رہی ہے۔تاہم کپتان کی”تبدیلی“ جھوٹے مسیحا کی ایک عملی شکل ہے۔