گزشتہ روز لندن میں ایک پریس کانفرنس میں محترمہ مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان سیاسی دہشت گرد ہے اس کی بات نہیں سننی چاہئے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے جمہوریت کے حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا ہے جمہوریت تو نام ہی عوامی رائے کا ہے آج جس لیڈر کے ساتھ سارا پاکستان ہے اس کے ایک اشارے پر لبیک کہہ رہا ہے اسے ہی ایک ایسی پارٹی کی لیڈر جس کو بار بار اسی لیڈر سے شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ اسے سیاسی دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔ ہمارے سیاست دان بیرونِ ملک جا کر بیان بازی کرتے ہیں جس کی منطق سمجھ سے باہر ہے، اگر آپ نے سیاست کرنی ہے تو پھر اپنے وطن میں رہتے ہوئے کریں۔ بقول مریم دہشت گرد عمران خان کا لانگ مارچ جاری ہے جو کہ اسلام آباد جا کر دھرنے کی شکل اختیار کر لے گا، حالات کے مارے عوام جوق در جوق اس میں شامل ہو رہے ہیں، حکومت بجائے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کے بڑے غیر سنجیدہ قسم کے بیانات جاری کر رہی ہے جب کہ عمران خان کا نئے انتخابات کا مطالبہ بالکل جائز ہے کیونکہ عوام اس کے ساتھ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ تشدد کی باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے عمران خان کو گرفتار کر لیا تو وہ اسے مچھ جیل کی مرچی بیرک میں رکھیں گے، یہ طاقت کے استعمال کی دھمکیاں کسی صورت بھی درست نہیں ہیں یہی رویہ سیاست دانوں میں بات چیت آگے بڑھانے میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ تنقید تو ہونی چاہئے لیکن اسے ایک حد میں رہنا چاہئے۔ حکومت کے ایک وزیر کو اس طرح کا لہجہ نہیں اپنانا چاہئے کیونکہ اپوزیشن نے تو یہ سب کچھ کہنا ہی ہوتا ہے حکومت کو ہی خیال کرنا ہوتا ہے کیونکہ کلیدی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی کوشش ہونی چاہئے کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ دھمکیاں حکومت کا شیوہ نہیں ہوتا حکومت کو معاملات کو دانشمندی سے سلجھانا ہوتا ہے۔
لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔ اگر اسی طرح لانگ مارچ جاری رہا اور اس کا
کوئی حل نہیں نکلتا تو اس سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہے جب کہ عمراں خان مذاکرات کا عندیہ دے چکے ہیں بلکہ انہوں نے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو بھی اختیارات سونپ دیئے ہیں۔ ملک اس وقت بڑے گمبھیر حالات کا شکار ہے ایسے حالات میں مذاکرات کی میز پر آنا کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ تشویش کی جو بات ہے وہ حکومت کا بار بار اعلان کرنا کہ وہ لانگ مارچ کے شرکاء سے طاقت کے بل بوتے پر نمٹے گی۔ جب کہ مسئلے کا پر امن حل نکلنا چاہئے۔ ہر کوئی حکومت کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ جمہوریت کو کسی صورت بھی ڈی ریل نہیں ہونے دیا جانا چاہئے، مسائل آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی طریقے سے حل کئے جانے چاہئیں۔ جمہوریت اور آئین ہی بالادست ہیں افراد آتے جاتے رہتے ہیں، کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے اس نظام کو خطرات لاحق ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ معاملات کو طول دینے کے بجائے مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں، اپنے اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے ملک میں انتشار میں اضافہ ہو۔ جمہوریت میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ فریقین دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اتفاق پیدا کریں۔
لانگ مارچ کا عمل جتنا طول پکڑتا چلا جائے گا وہ حکومت اور ملک کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس لئے تمام فریقین کو چاہئے کہ وہ صبر و تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد مسئلے کا حل نکالیں۔ تحریکِ کے قائدین بھی مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دھرنے سے عام آدمی کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں دوسرا حکومت کے خلاف ان کا دھرنا بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے تو ان کو اس کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا، کیونکہ اس کے بعد حکومت کے خلاف ان کی کال پر عوام توجہ نہیں دیں گے۔ اب جب کہ پنجاب، خیبر پی کے، گلگت بلتستان اور کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس لئے 25مئی کے برعکس حکومت کے لئے لانگ مارچ کو روکنا بھی مشکل نظر آ رہا ہے اور جس طرح عوام مہنگائی اور دیگر مسائل کے ستائے ہوئے ہیں خیال یہی ہے کہ لانگ مارچ کے اختتام پر بہت بڑی تعداد میں لوگ دھرنے کا حصہ ہوں گے۔ بے شک حکومت نے ریڈ زون کا ایریا بڑھا دیا ہے لیکن اگر لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا تو حکومت کے لئے ایک بڑے ہجوم کو روکنا انتہائی مشکل ہو گا اور اس مرحلے پر ذرہ سی بے احتیاطی سے ہجوم بپھر سکتا ہے اور صورتحال ناقابلِ یقین رخ اختیار کر سکتی ہے اور اگر اس حوالے سے حکومت فوج کی مدد لیتی ہے تو فوج کے لئے بھی ایسی صورتحال میں اس کی مدد کرنا مشکل ہو گا کیونکہ عوام پر تشدد سے خود فوج کا عوام میں غیر مقبول ہونے کا خدشہ رہے گا۔
گزشتہ چند دنوں سے حکومت کے خلاف جاری تحریک مومینٹم پکڑ چکی ہے جوں جوں لانگ مارچ اسلام آباد کے قریب آتا جائے گا عمران خان کے مطالبات بھی بڑھتے اور تبدیل ہوتے جائیں گے جو کہ ممکنہ طور پر کسی ادارے کے بارے میں بھی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت اور ملک کے لئے بہتر یہی ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء سے ابھی سے مذاکرات کئے جائیں ملک اس وقت مزید انارکی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو ریاستی منصوبہ سازوں اور اسٹیبلشمنٹ کو جس قدر جلد سمجھ میں آئے اس ملک کے مفاد میں اتنا ہی بہتر ہو گا، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام نہیں چل سکتا ہے۔ جو بھی جماعت آئندہ انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہو کر اقتدار میں آتی ہے اسے موقع ملنا چاہئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ اب سیاست کو ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلانا ممکن نہیں رہا ہے۔ عوام کا شعور سیاسی جماعتوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کے ذریعے حکمرانی کو بہتر بنائیں تا کہ انہیں ریلیف مل سکے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں کسی دباؤ کے بغیر پالیسی سازی کریں۔ کیونکہ پاکستان اس وقت بڑی حساس حیثیت اختیار کر چکا ہے جس میں ذرہ سی غیر ذمہ دارانہ روش اس کے وجود کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔