اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شریعت اور طریقت دونوں مشرب باہم لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت اگر انسان کے ظاہر کو مطیع بناتی ہے تو طریقت انسان کے باطن میں اطاعت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اسلام کے ان دونوں سرچشموں کا مقصد افراد اور معاشرہ کے احوال کی اصلاح ہے۔ حضور غوث الاعظمؒ کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں وہاں شریعت و طریقت کے ان ہی مقاصد کے حوالے سے واضح رہنمائی میسر آتی ہے۔
قلم کاروان،اسلام آباد کی ادبی نشست میں ڈاکٹر یاسر حسین ستی نے اپنے مقالے بعنوان شیخ عبدالقادر جیلانی، اتحاد امت کا مظہر،میں بتایا کہ شیخ مسلمانوں میں اتحاد کے حامی تھے۔مسلمان ایک دوسروں کو جوڑ کررکھیں،ا ور سب سے آسان یہ ہے کہ خود سب سے جڑجائیں۔
غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنے زمانے کے سب سے بڑے اولیا ء اللہ میں سے تھے۔ آپ اس وقت کی سپر پاور یعنی عباسی حکومت کے دارالخلافہ عروس البلاد بغداد میں رہائش پذیر تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔جہاں تک آپ کی تعلیم و تربیت کا تعلق ہے تو آپ نے اس وقت کے بڑے بڑے علما ء سے فیض حاصل کیا۔ آپ نے قرآن پاک کو تجوید و قرآت کے ساتھ پڑھا اور اس کے اسرار اور رموز کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے وقت کے بڑے بڑے محدثین اور عالم فاضل، مستند علما ء
سے علوم اصولی و فروعی، مذہبی و اخلاقی وغیرہ علوم میں کمال حاصل کیا اور بغداد میں آپ کو تمام علماء پر فوقیت حاصل ہوگئی۔اس وقت بغداد جہاں مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا وہیں ایک علمی و ثقافتی مرکز بھی تھا، اس لئے شیخ نے ابتدائے عمر ہی میں بغداد کا قصد کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ایام جوانی میں آپ بغداد وارد ہوئے اس وقت آپ کی عمر17 یا 18 سال تھی۔بغداد میں آپ نے وہاں کے نامور اہل علم سے اپنی علمی پیاسی بجھائی.
علوم ظاہریہ کے ساتھ ساتھ آپ کی توجہ علم باطن کی طرف بھی تھی جس کی ابتدائی تعلیم اپنے فقہ کے استاذ ابو سعد المخرمی سے لی، نیز اس وقت بغداد میں مشہور صوفی حماد بن مسلم الدباس متوفی ۵۲۵ھ، کا خوب چرچا تھا اس لئے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے علم و سلوک و تصوف کے لئے ان کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیا اور سالہا سال ان کی مجلس میں شریک ہوتے رہے خاص کر جمعہ کے دن ان کی مجلس میں ضرور حاضر ہوا کرتے تھے
حضور غوث الاعظمؒ کی تعلیمات اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی اتباع اور احکامِ شریعت کی پیروی پر مبنی ہیں۔ ان تعلیمات میں ہر حال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتغاء و رضا طلبی کا سبق مضمر ہے۔ یہ تعلیمات احوالِ قلب، احوالِ نفس اور احوالِ روح کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے موافق کرنے کی تعلیمات ہیں۔ نیز یہ ظاہر پر شریعتِ اسلامی کے وجوب اور نفاذ کی تربیت کا سامان بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا طریقہ سلوک بے نظیر تھا۔آپ کے کسی ہم عصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت یا مجاہدہ میں ہمسری کرسکے۔ ایک مرتبہ حضرت غوث اعظم ؒ نے فرمایا کہ 25 سال تک ترک دنیا کیے ہوئے میں عراق کے جنگلوں اور میدانوں میں پھرتا رہا کہ میں کسی کو نہ پہچانتا اور کوئی مجھے نہ جانتا، رجال الغیب اور جنات میرے پاس آمد و رفت کرتے اور میں انہیں حق کی تعلیم دیا کرتا۔ چالیس برس تک فجر کی نماز میں نے عشاء کے وضو سے ادا کی، پندرہ سال تک عشاء کی نماز کے بعد ایک قرآن شریف ختم کرتا رہا۔ ایسا بہت زمانہ گزرا ہے کہ کھانے پینے اور سونے سے علیحدہ رہا۔ گیارہ برس تک برج بغداد کے اندر عبادت الٰہی میں مشغول رہا میری طویل اقامت کی وجہ سے لوگ اسے برج عجمی بھی کہتے ہیں برج بغداد کے قیام عبادت کے زمانے میں اللہ سے عہد کرتا رہا کہ جب تک غیب سے کھانا نہ ملے گا، نہ کھاؤں گا، اس حالت کو کافی عرصہ گزر جاتا، لیکن میں عہد شکنی نہ کرتا اس کے علاوہ میں نے اللہ سے جو وعدہ کیا، اس کی خلاف ورزی کبھی نہیں کی۔
قادری سلسلہ کے بانی شیخ عبدالقادر جیلانیؒہیں،یہ سلسلہ ہندوستان اور پاکستان یعنی برصغیر میں کافی مقبول رہا ہے۔ گو کہ آج کل قادری سلسلے کی تعلیمات اور چشتی سلسلے کی تعلیمات میں کچھ فرق نہیں رہا اور یہ آپس میں مل گئی ہیں،لیکن پھر بھی اس کی ایک شان ہے۔ شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ہمعات میں فرماتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم”نسبت اویسی“ رکھتے ہیں، ان کی اس نسبت کے ساتھ ”نسبت سکینہ“ کی برکات بھی ملی ہوئی ہیں۔