خواجہ فرید کی نگری روہی کے شاکر شجاع آبادی سرائیکی زبان کے ہر دل عزیز اور عوامی اور درویش صفت شاعر ہیں۔ انہیں سرائیکی وسیب اور ثقافت میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ گو کہ وہ سرائیکی میں شاعری کرتے تھے لیکن ان کے کلام کی کاٹ سے انہیں ہر زبان میں پذیرائی ملی اور ان کی شاعری سرائیکی وسیب سے باہر نکل کر ملک بھر میں محروم طبقے میں مقبول ہوئی۔ ان کے شعروں کی کاٹ دل ہلا دیتی ہے۔ اس عظیم شاعر کی قوت گویائی جسمانی معذوری کی وجہ سے متاثر ہوئی پھر بھی انہوں نے ہزاروں کے مجمع میں اپنا کلام پڑھا اور داد سمیٹی۔ ان کی شاعری کا محور پسا ہوا طبقہ تھا جس کی وجہ سے ان کی عوام میں بھر پور پذیرائی تھی۔ ان کا تعلق ملتان کے قریب شجاع آباد سے ہے۔ ان کے کلام کو عوام کے علاوہ خواص میں بھی پذیرائی ملی اور انہیں 2007 اور 2017 میں دو بار صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
سرائیکی وسیب کے اس عظیم شاعر شاکر شجاع آبادی کے حوالے سے گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی تھی جس میں کوئی شخص انہیں موٹر سائیکل پر باندھ کر علاج کے لیے لے کر جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر جی دہل گیا۔ یہ سب دیکھ کر مختلف تبصرے ہونے لگے جو کہ جائز بھی تھے۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ المیہ ہے ہمارا کہ ہم زندوں کی قدر کرنا جانتے ہی نہیں بس جونہی سانسیں پوری ہوئیں اللّہ تعالیٰ کا فرشتہ آن پہنچا سب کی محبت جاگ جاتی ہے اور دکھاوے کا احساس سنبھالا نہیں جاتا مرنے کے بعد ایوارڈ دینے سے بہتر ہے ایسے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی جائیں یہ لوگ ہمارا سرمایہ ہیں حکومت کو فوری طور پر انکے علاج معالجہ کا بندوبست کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ ان کی حالت دیکھ کر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہر کس و ناکس نے حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنی بھڑاس نکالی۔ اس سے کوئی اختلاف نہیں کہ شاکر شجاع آبادی قومی سرمایہ ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد حکومت وقت، ادبی تنظیموں اور متمول لوگوں کو کرنی چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے جو ہم سب پر قرض ہے۔ شہباز شریف دور حکومت کے پنجاب کے ایک سیکرٹری اطلاعات جو اس وقت بھی سروس میں ہیں نے بتایا کہ انہیں وزیر اعلیٰ کی طرف سے سختی سے ہدایت تھی کہ شاکر شجاع آبادی کو علاج معالجے یا ضروریات زندگی کے حوالے سے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کا دعویٰ تھا کہ موجودہ حکومت بھی ان کو طے شدہ امداد دے رہی ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم کہاں جا رہی ہے۔ سرائیکی کا یہ عظیم شاعر جسمانی معذوری کی وجہ سے روزمرہ زندگی کے امور انجام نہیں دے سکتا اور یہ کام ان کے بیٹے سر انجام دیتے ہیں۔ اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ پاکستان کے اس عظیم شاعر کو جس بیچارگی سے موٹر سائیکل پر باندھ کر ہسپتال لے جایا جا رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ان کو دی گئی رقم کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے کہ اس عظیم شاعر کو ملنے والی رقم کا استعمال کیسے اور کہاں ہو رہا ہے۔
یہ خبر دیکھ کر بلاول بھٹو کی ہدایت پر سندھ حکومت نے شاکر شجاع آبادی کو دس لاکھ کا چیک پہنچایا۔ جہانگیر خان ترین نے بھی ہسپتال جا کر ان کی عیادت کی اور پچاس ہزار ماہانہ کے علاوہ پانچ لاکھ روپے کا چیک بھی دیا۔
اگر دیکھا جائے تو حاصل شدہ معلومات کے مطابق حکومت نے انہیں دو بار تمغہ حسن کارکردگی اور 14 لاکھ نقد دئیے ہیں۔
شہباز شریف نے دس لاکھ کی امداد دی نقد نہیں دئیے انکے اکاؤنٹ میں رکھوائے تاکہ اس رقم کا منافع انہیں تمام عمر ملتا رہے اور مل رہا ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے 20 ہزار ماہانہ اکادمی آف لیٹرز کی جانب سے 13 ہزار ماہانہ ملتا ہے۔ ہر سرکاری ہسپتال میں ان کے لیے مفت علاج کی سہولت موجود ہے۔ دو این جی او کی طرف سے 50000 ہزار ماہانہ ملتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے 3 لاکھ روپے اور 36000 ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا ہے۔ لیکن یہ عظیم شاعر پھر بھی مناسب دیکھ بھال سے محروم ہے۔ ہمارے لیے شاکر شجاع آبادی انتہائی قابل احترام ہیں لیکن ان جیسے لوگ جنہوں نے اپنی تخلیق سے قوم و ملک کی رہنمائی کی، کا خیال رکھنے کے علاوہ حکومت وقت اور ادبی تنظیموں کا یہ بھی فرض ہے کہ ان کے گزارے کے لیے دی گئی رقم کا استعمال صحیح ہو رہا ہے تا کہ آئندہ کسی تخلیق کار کے ساتھ اس عظیم شاعر جیسا سلوک نہ ہو۔
شاکر شجاع آبادی کا کچھ کلام قارئین کی نذر ہے۔
توں محنت کر تے محنت دا صلہ خدا جانڑے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانڑے خدا جانڑے
72 حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں
71 حور دے بدلے اساں کوں رج کے روٹی دے
دل ساڈا شاکر شیشے دا
ارمان لوہار دے ہتھ آ گئے
نجومی نہ ڈراوے دے اساکوں بدنصیبی دے
جڈاں ہتھاں تے چھالے تھئے لکیراں خود بدل ویسن
اتہاں کہیں کو ناز اداواں دا
اتہاں کہیں کو نا ز وفاواں دا
اساں پیلے پتر درختاں دے
ساکوں رہندا خوف ہواواں دا
ساکوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں
اساں راہ دے ککھ تیڈے کم اسوں
اس شعر میں تو شاکر شجاع آبادی نے اپنی زندگی کا نچوڑ بیان کر دیا۔
اساں ہر کوں خون جگر دا پلائے اج اساڈا کوئی نہ ہا
بھاویں تن دے لیڑے ویچنے پئے کم ہر دے آئے اساڈا کوئی نہ ہا
کھل بس کے ہر پل ہر کئیں دے دکھ سر تے چائے اساڈا کوئی نہ ہا
حیران ہاں شاکر قسمت تے اساں ہر دے ہاں اساڈا کوئی نہ ہا
اللہ پاک شاکر شجاع آبادی کی مشکلیں آسان فرمائے اور ان کو صحت کاملہ دے۔ آمین
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔