سپریم کورٹ نے بھٹوصدارتی ریفرنس پر دلائل کے بعد رائے محفوظ کرلی

سپریم کورٹ نے بھٹوصدارتی ریفرنس پر دلائل کے بعد رائے محفوظ کرلی

اسلام آباد : سپریم کورٹ  نے بھٹوصدارتی ریفرنس  پر دلائل کے بعد رائے محفوظ کرلی ہے۔ صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی  نے دلائل مکمل کرلیے۔ 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی ۔رضا ربانی نے کہا کہ بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟رضا ربانی نے کہا کہ معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

مصنف کے بارے میں