تقریبا پانچ سال سے بھارتی قید میں پڑی پاکستانی خاتون سمیرا رحمان کے بارے میں جوں جوں تفصیلات سامنے آرہی ہیں، توں توں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم شاید کسی غیر مہذب ملک کے باشندے ہیں۔ ایسا ملک جہاں کے بسنے والے انسانوں کی بھیڑ بکری جتنی اہمیت بھی نہیں۔ میں سیاست کی بات نہیں کر رہی ، نہ ہی میں اس طرح کے معاملات کو سیاست کی عینک سے دیکھتی ہوں۔ اس رویے کا تعلق کسی مخصوص جماعت کے دور حکومت سے بھی نہیں۔ سال ہا سال سے ہم ایسے ہی چلے آرہے ہیں۔ ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی بے حسی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ترجیحات بدل رہی ہیں۔ بیورو کریسی اپنی ترقیوں اور اچھی جگہ تقرریوں کے لئے صرف انہی کاموں کو اہم خیال کرتی ہے جن پر سیاسی حکمرانوں کی توجہ ہے۔ ایک عام شہری پر کیا گزرتی ہے، تھانوں ، کچہریوں اور بڑے بڑے دفتروں میں اس سے کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے، ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت کا کیا حال ہے، کتنے لوگ چھوٹے چھوٹے جرائم میں کب سے جیلوں میں پڑے مقدمات کی شنوائی کے منتظر ہیں، کس کی جائیداد پر کس نے قبضہ کر رکھا ہے، کون اپنے زور آور کرایہ دار کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہو چکا ہے، ان معاملات سے کسی کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
حال ہی میں دو مقدمات کے فیصلے سامنے آئے ہیں۔ پہلے مقدمے کا تعلق پاکستان کے عظیم ہیرو، ایٹمی پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبد القدیر خان مرحوم سے ہے۔ ان کی زندگی کے گزشتہ اٹھارہ برس کیسے گزر ے ، یہ تو پورا پاکستان جانتا ہے۔ انہوں نے اپنی نقل و حرکت پر پابندی یا دوسرے معنوں میں مستقل حراست کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ لیکن معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں گیا، کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں۔ تقریباً دو سال قبل، مئی 2020 میں ڈاکٹر صاحب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور بطور ایک شہری، اپنے بنیادی حقوق کیلئے دہائی دی۔ آزادانہ نقل وحرکت کا حق مانگا۔ اس معاملے کی آخری سماعت گزشتہ برس جون 2021 میں ہوئی اور معاملہ طویل تاخیر کی نذر ہو گیا۔ گزشتہ سال، اکتوبر کے مہینے میں ڈاکٹر صاحب پچاسی برس کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ ان کے انتقال کے تقریباً چار ماہ بعد ان کی پٹیشن پھر سماعت کو لگی۔ ظاہر ہے کہ اب یہ درخواست غیر موثر ہو چکی تھی۔ اپنے وطن میں نقل و حرکت کی اجازت مانگنے والا، 2004 سے حراست میں تھا ، جو آزاد ہو کردوسرے جہان کو کوچ کر گیا۔ اس لمبے عرصے کے دوران بنیادی حقوق کی ضمانت دینے والا آئین اس کے کسی کام نہ آیا۔
دوسرا مقدمہ بریگیڈئیر (ر) اسد منیر کا ہے جو ایک نظیر کے طور پر دیر تلک یاد رکھا جائے گا۔ اسد منیر کے خلاف نیب نے تین سال پہلے ، مارچ 2019 میں، سرکاری حیثیت کے ناجائز استعمال اور کرپشن بارے ایک ریفرنس دائر کیا۔ حساس طبیعت رکھنے والے بریگیڈئیر صاحب کو شدید صدمہ ہوا۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا گیا۔ بریگیڈئیر صاحب نے اس ریفرنس کے حوالے سے ایک درد انگیز تحریر چھوڑی اور 16 مارچ 2019 کو خود کشی کر لی۔ اب عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں بریگیڈئیراسد منیر کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے نیب کا ریفرنس مسترد کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں قانون اور انصاف کی ایسی بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں لیکن میں تو سمیرا کا ذکر کرنے چلی تھی۔ پاکستان میں سمیرا کی مظلومیت اور بے کسی کا معاملہ اٹھانے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے تازہ انکشاف یہ کیا ہے کہ سمیرا پچھلے چھ ماہ سے نہیں، تقریباً چار سال سے شہریت کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کی منتظر بیٹھی تھی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سینیٹر عرفان صدیقی نے دفتر خارجہ کی رپورٹ ) جو سینٹ کو فراہم کی گئی( کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سمیرا کو پہلی بار کونسلر رابطے کی اجازت مئی 2018 میں ملی۔ اس کے فورا بعد جون 2018 میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن نے پاکستانی وزارت داخلہ کو لکھا کہ سمیرا کی شہریت کی تصدیق کر کے مطلوبہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔ اب جون 2018 سے 17 فروری 2022 تک کے عرصے کے دوران کیا ہوا، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ پونے چار سال کے عرصے میں ہماری وزارت داخلہ کی اپنے ہائی کمیشن یا متعلقہ بھارتی اتھارٹیز سے کیا خط و کتابت ہوئی، کتنے رابطے ہوئے، اتنے طویل عرصے میں شہریت سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں کیا چیز مانع رہی؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کوئی کچھ بتانے کی زحمت بھی نہیں کر رہا۔ اور سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ کوئی کسی سے پوچھنے والا بھی نہیں۔
پہلے 14 فروری اور پھر 17 فروری کو سینیٹر صدیقی نے یہ معاملہ ایوان بالا میں اٹھایا۔ چیئر مین صاحب نے رولنگ دی کہ داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتیں روزانہ کی بنیاد پر سمیرا کے بارے میں رپورٹس پیش کیا کریں۔ معلوم نہیں ایسی کتنی رپورٹس پیش کی گئیں۔17 فروری کی شام کو ہی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے یہ خوشخبری سنائی کہ سمیرا کو پاکستانی شہریت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ عرفان صدیقی کی سینٹ میں تقریر اور شیخ صاحب کی خوشخبری کے دوران صرف چار گھنٹے کا وقفہ تھا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو مسئلہ صرف چار گھنٹوں میں حل ہو گیا، اسے چار سال کیوں لٹکائے رکھا گیا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اطلاع ہے کہ انشااللہ سمیرا سی ماہ بھارتی قید سے آزاد ہو کر وطن آجائے گی لیکن کیا اس پر کوئی انکوائری یا کمیشن نہیں بننا چاہییے کہ اس مجرمانہ تاخیر اور غفلت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ڈاکٹر عافیہ تو دو دہائیوں سے امریکی قید و بند میں پڑی ہے۔ شاید امریکہ پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ یا شایدہم اس بیٹی کو بھول گئے ہیں۔ لیکن جب ہمیں بھارت سے کہا جا رہا تھا کہ شہریت کا سرٹیفکیٹ دو اور سمیرا کو لے جاو تو ہم ایسا کیوں نہ کر پائے؟
بتایا گیا ہے کہ اس وقت بھی بھارتی جیلوں میں دو سو سے زیادہ پاکستانی اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیابھر کی جیلوں میں پڑے پاکستانیوں کی تعداد پندرہ ہزار سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتی کہ ان مظلوم پاکستانیوں کے بارے میں کس سے سوال کریں؟ کس سے پوچھیں کہ ان کے مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟ یہ کتنی سزائیں بھگت چکے ہیں ؟ ان کے رہا نہ ہو سکنے کے اسباب کیا ہیں؟ شاید یہ سوال ، سوال ہی رہیں لیکن سمیرا وطن آجائے تو ضرور تحقیق ہونی چاہیے کہ اس کی مصیبتوں میں ہماری وزارت داخلہ یا خارجہ کا کتنا حصہ تھا؟ اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے۔ شاید کوئی بہتری کی صورت نکل آئے۔