ان دنو ں ،جبکہ اپوزیشن لانگ مارچ اور عدم اعتماد کے چکروں میں پڑی ہوئی ہے اور حکومت اتحادیوں کی بے یقینی سے دوچار ہے کہ وقت آنے پر کہیں غچہ ہی نہ دے جائیں، معتبر سیاستدان چودھری شجاعت حسین نے ایک بڑی پتے کی بات کی ہے کہ معیشت بہتر نہ ہوئی تو سب کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ شا ئد یہ بڑے چو دھری صاحب ہی کی با ت کا اثر تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خا ن نے فوری طور پر بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلا ن کر دیا۔ یوں عوام نے ڈ وبتے کو تنکے کا سہارا کے موافق کچھ سکھ کا سانس لیا۔ مگر کیا کہیے کہ اپو زیشن نے وز یرِ اعظم کے اس اقدا م کو یہ کہہ کر اپنی فتح قرار دیا کہ ہمارے لا نگ ما رچ سے ڈر کر وزیرِ اعظم نے قیمتوں میں کمی کا اعلا ن کیا ہے۔ تو قارئین کرام، یہی ہے ہماری سیا ست! یعنی معیشت کی بہتری کی بات کرتے ہیں تو قدرتی طور پر سوچ کا رخ حکومت کی جانب ہوجاتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالت بہتر کرے اور مسائل کا حل نکالے۔ ہماری حکومت اقتدار کے چوتھے برس میں ہے مگر اس عرصے میں عوامی مشکلات اور معاشی دلدل میں وسعت ہی آئی ہے۔ حکومت کی شکایت بجا کہ اس نے جب نظام سنبھالا تو ملک کے معاشی حالات تسلی بخش نہ تھے، مگر یہی تو اس تیسری سیاسی قوت کی صلاحیتوں کا امتحان تھا؛ تاہم جلد ہی یہ کھلنے لگا کہ جن کی مہارت پر بھروسا کیا گیا تھا وہ ایسے ماہر نہیں نکلے۔ اور کیو ں انہو ں نے پہلے سے حا لا ت کی نز ا کت کا اندا زہ نہیں لگا یا ۔ چا ہیے تو یہ تھا کہ وہ پو ری طرح حالا ت کی چھا ن پھٹک کر کے اتنا ہی وعد ہ اور دعویٰ کر تے جتنا ممکن ہو سکتا تھا۔ مگر اقتدا ر کی لا لچ اِس حد تک ذ ہن پر سوار تھی کہ ہر حا لت میں کر سی کو حاصل کر نے کے لئے آ نکھیں اور کان بند کر لئے۔ اور اقتدار میں آنے کے بعد جب دیکھا کہ حالا ت بس سے با ہر ہو رہے ہیں تو وہی حکمت عملی جو ماضی کے ہر حکمران نے برتی کہ پچھلی حکومتوں نے سب بگاڑ دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے مثالی نہ تھے مگر سوال یہ ہے کہ ان کے جانشینوں نے کیا تیر مارا ہے؟ معیشت کا کوئی شعبہ دیکھ لیں 2018ء کے بعد کے حالات پہلے سے زیادہ دگرگوں ہیں۔ بجلی، پٹرول اور گیس کے نرخ ساڑھے تین سال پہلے کی نسبت خاصے بڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی کا گراف اونچا ہوتا جارہا ہے۔ روپے کی قدر 2018ء کی نسبت بے حد کم ہوچکی ہے۔ جبکہ عام آدمی کی آمدنی میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس قوتِ خرید میں ہرگزرتے دن کے ساتھ کمی واقع ہورہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے پاس پہلے والوں کی نسبت کہیں بہتر موقع تھا۔ وزیراعظم عمران خان کا شخصی کرشمہ، عوام میں مقبولیت، مغربی دنیا میں تعارف اور تعلقات، یہ خصوصیات انہیں پہلے
حکمرانوں سے ممتاز کرتی تھیں اور انہی کی وجہ سے یہ توقع بھی کی جارہی تھی کہ ان کے پاس ترقی کا بہترین پروگرام ہوگا، مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ حالانکہ وہ طویل جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، مگر اس طویل جدوجہد کا کوئی اثر تاحال نظر نہیں آسکا۔ ملکی حالات بدستور اسی گمبھیرتا میں ہیں۔ معیشت پر جو گزری سو گزری، انتظامی معاملات، امن و امان، سرکاری اداروں میں اصلاحِ کار، رشوت ستانی کا خاتمہ، بدعنوانی کا سد باب، عوام کے حقوق کی پاسداری، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کوئی بڑی چھلانگ، کہیں کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ چنانچہ اس صورت حال میں یہ سوال بنتا ہے کہ جن عوام نے ان شخصیات سے توقع وابستہ کرلی تھی، تبدیلی کے بیانیے پر اعتماد کیا تھا،اقتدار کے چوتھے سال جب وہ
ایسا ہوتا ہوا نہیں دیکھتے تو ان کے خیالوں کی رو کیا ہوگی؟ یہ منظر نامہ اس امر کی شہادت ہے کہ قیادت کا بحران پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستانی عوام نے دو بڑی سیاسی جماعتوں کا متبادل ڈھونڈ نکالا، مگر یہ نسخہ بھی کارآمد ثابت نہیں ہوسکا۔ حکومت کے لیے یہ بنیادی چیلنج ہے کہ وہ اپنی اس شناخت اور شہرت کو تبدیل کرے اور جن عوام نے اس کے ساتھ توقعات وابستہ کی تھیں ان کی توقعات پوری ہونے کا امکان ظاہر ہو۔ یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ ملکی مسائل کو بتدریج حل کیا جاسکتا ہے، ایک دم یا چند برس میں سب کچھ ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہوتا، مگر حکومت اس کی بنیاد تو رکھے، کچھ شروعات تو کرے۔ ابھی تک تو ہمارے نظام میں ایسی پہل بھی نظر نہیں آتی۔ رشوت ستانی، بدعنوانی، کھوکھلی بیان بازی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، مہنگائی ایسے مسائل اگر چند برس پہلے کی نسبت آج زیادہ ہیں تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ ہم آگے جانے کے لیے چلے تھے مگر پیچھے جارہے ہیں، یا کم از کم اسی مقام پر کھڑے ہیں یعنی ’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘ حرکت بھی صرف زبان کی۔ حکومت کی کارکردگی تو ہر ایک کی نظر میں ہے اور روزافزوں مشکلات میں ساری تنقید کا ہدف حکومت ہی بنتی ہے مگر اپوزیشن، جسے جمہوری نظام میں برابر ذمہ داریاں حاصل ہیں، کی ناکامی بھی غیرمعمولی نہیں۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی نظر عوامی مشکلات یا قومی مفاد کے معاملات کے بجائے صرف اپنے سیاسی مفادات پر مرکوز رہی ہے اور سیاسی مفادات پر قومی مفادات کو قربان کرنا یا عوام کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری سے پہلو تہی ان کے نزدیک عام سا واقعہ ہے۔ اس خودپسندی اور خودغرضی نے اپوزیشن اور حکومت میں وہ ورکنگ ریلیشن شپ بھی بننے نہیں دیا جو ایک اچھی جمہوریت کا تقاضا اور خاصہ ہے۔ ملک میں پھر لانگ مارچوں کا غلغلہ ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کی کہانیاں ہیں، مگر عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر اپوزیشن جماعتوں کا اپنا کردار اور رویہ محل نظر ہے۔ یہ سوال بے جا نہیں کہ جو جماعتیں، ایوان میں اکثریت رکھنے کے باوجود اس حکومتی مسودئہ قانون کی منظوری کو روک نہیں سکتیں، جس پر وہ جی بھر کر تنقید کرتی ہیں تو کیا عدم اعتماد کی تحریک کا بھاری پتھر ان سے اُٹھے گا؟ عوام کو اس سیاسی دھینگا مشتی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیوں ہو، جب اس سے ان کا کچھ سنورتا نہیں۔ عوا م کا تو یہ حال ہے اور یہ ما ننا ہے کہ
تیرے وعدے پہ جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا
مطلب یہ کہ عوا م با ر با ر چرکہ کھا نے کے بعد کم از کم اتنے تو سمجھ دا ر ہو چکے ہیں کہ وہ اب کسی دلاسے میں آ نے والے نہیں۔بہر حال اہم بات وہ ہے جو چودھری شجاعت حسین صاحب نے کہہ دی ہے کہ سیاست کے بجائے معیشت کو بچائیں۔ معیشت بے حال ہو تو کسی کی سیاست بھی نہیں بچے گی۔ اس میں سیاسی رہنمائی کے دعوے داروں کے لیے بڑے اشارے ہیں۔