آج کل ایک بار پھر سے احتجاجی سیاست عروج پر ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی پارٹیوں کو احتجاجی سیاست کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر وہ کارکنوں کو جگاتی ہیں۔ پارٹیوں کو اپنے ورکروں کی ضرورت مشکل حالات میں ہوتی ہے، جب وہ اقتدار میں ہوتی ہیں تو کارکن بے چارے کہیں نظر نہیں آ رہے ہوتے۔ سیاسی کارکن ہر سیاسی جماعت میں سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن جماعتیں انہیں صرف استعمال کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس یہ سرمایہ سب سے زیادہ اور وافر تعداد میں ہونے کے علاوہ ایسا ہے جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس میں اپنے جیالوں کی کچھ قدر و اہمیت ہے اور یہ جیالے دہائیوں سے اپنی قیادت اور پارٹی کے لئے قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو حقیقی طور پر عوام کے رہنما تھے اور سرکاری سکیورٹی اور پروٹوکول چھوڑ کر عوام میں آجاتے تھے، ان جیسی عوام دوستی کسی اور رہنما میں نہیں تھی۔ اس سرزمین بے آئین کو 73ء کا آئین ایک عظیم جمہوری اور وفاقی تحفے کے طور پر ملا اور ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے طوائف الملوکی اور محلاتی سازشوں پر مبنی سیاسی جوڑ توڑ کے فرسودہ نظام کو ختم کیا اورجمہوریت کی مسلمہ پارلیمانی روایات اور جمہوری اقدار سے ہم آہنگ نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی جس کی اساس عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود سے مشروط تھی۔ جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں یہ خوبی نہیں ہے ان کا ساتھ دینے اور اپنی قیادت سے محبت کرنے والوں سے ویسا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں پارٹی ورکرز اور نیچے کی لیڈر شپ کی قدر نہیں کی جاتی ہے حتیٰ کہ میاں نواز شریف اپنے اراکین اسمبلی سے بھی ملنے سے گریزاں رہا کرتے تھے ان کے قریب چند ہی افراد رہتے تھے۔ میاں نواز شریف ایک بار لاڑکانہ گئے تو وہاں سکیورٹی معاملات پر لیگی متوالوں کو میاں صاحب سے دور رکھا گیا ان سے
ملنے کے خواہاں ایک کارکن نے اہمیت نہ ملنے پر مایوس ہو کر خود کو آگ لگا لی تھی اور کچھ دن بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی بے حسی کہ اس نے جلنے والے کو اپنا کارکن ماننے سے انکار کر دیا تھا جب کہ سیاسی فائدہ لینے کے لئے مسلم لیگ (ق) نے اس کا علاج کرانے کا اعلان کیا تھا اور ایک صوبائی عہدیدار نے ہسپتال جا کر اس کی عیادت کی تھی جب کہ میاں صاحب نے مسلم لیگ (ن) کے کسی مقامی رہنما کو یہ ہدایت نہیں کی کہ وہ ہسپتال جا کر اس کارکن کی عیادت کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے ہاں نچلی سطح کے رہنماؤں اور کارکنوں کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ صرف ذاتی وفاداروں کو اہمیت ملتی ہے۔ مالی فائدے، مراعات اور ملازمتیں بھی ان ہی کا مقدر بنی رہیں۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے بعض رہنما کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں یا مایوس ہو کر کنارہ کشی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب میاں صاحبان کو ضرورت پڑی تو کارکنوں نے اس طرح قربانیاں دینے کی کوشش نہیں کی۔ اگر ہم دیکھیں تو گزشتہ سال پی ڈی ایم کے لاہور کے جلسے میں بھی یہی صورتحال تھی ، مسلم لیگ کا گڑھ ہونے کے باوجود وہاں پارٹی کارکنوں جلسہ گاہ میں نہیں پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کو بڑی خفت اٹھانا پڑی تھی۔ یہ سب اس لئے ہے پارٹی قیادت کارکنوں اور رہنماؤں کو اس طرح کی عزت نہیں دیتی ہے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں جب بھی میاں صاحبان کا وقت نکل جاتا ہے یا وہ مشکل میں پڑتے ہیں تو اپنے کارکنوں اور لیڈرز کو چھوڑ کر باہر کے ملک میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کی جلاوطنی، ان کی وطن واپسی اور پھر جلاوطنی اور سزا کے دوران کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے کارکن یا کوئی بڑا لیڈر احتجاج کے لئے سڑکوں پر آیا ہو۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی جانب سے پارٹی ورکرز تو نظر انداز کئے جانے کے شکوے کرتے ہی ہیں۔ کارکنوںکے ساتھ تو بے اعتنائی برتی ہی جاتی ہے مگر خود سے متفق نہ ہونے اور حکم کی تعمیل نہ ہونے پر پارٹی کے اہم رہنماؤں کو بھی اپنے قائدین کی نظروں سے گرنا یا خوار ہونا پڑتا ہے۔ جس کی ایک مثال جاوید ہاشمی بھی ہیں جنہوں اپنی قیادت کی جلاوطنی میں نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو زندہ رکھا بلکہ جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کا انتقامی نشانہ بن کر جیلوں میں طویل سزائیں اور صعوبتیں برداشت کیں مگر انہیں جواب میں کیا ملا، یہ تو دنیا نے دیکھامگر انہیں جو شکایتیں اپنی قیادت سے تھیں ان کا ازالہ یا شکایتیں رفع کرنا تو دور کی بات انہیں بلا کر پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا گیا کہ انہیں کیا شکایتیں تھیں اور یہی صورتحال میرے ساتھ اور مجھ جیسے بہت سے کارکنوں سے بھی روا رکھی گئی۔
جب کہ مسلم لیگ (ن) کی توقع ہوتی ہے کہ اس کے ہر آڑے وقت میں ان کے کام آیا جائے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قیادت نے اپنا نقصان کر کے کبھی کسی کو کچھ دیا ہو۔ بلکہ ہر وقت ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں، کبھی جان کا نذرانہ مانگ رہے ہوتے ہیں تو کبھی چندہ، کبھی زکوٰۃ کے پیسے کے طلبگار ہوتے ہیں تو کبھی بلبلاتے، جان کنی کے عالم میں مبتلا مصیبت کے ماروں سے مزید تعاون اور تحمل کی اپیل کرتے ہیں۔ یہ اپنی اولادوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر کے ہم سب سے دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانے یا ان کو گلے لگانے پر اصرار کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے زکام کا علاج بھی یورپ سے کراتے ہیں اور عام آدمی کے لئے بنیادی مرکزِ صحت کے مراکز میں چار دوائیاں رکھ کر افتتاحی تقریب میں تالیاں بجوا کر فوٹو شوٹ کراتے ہیں۔ خود سونے کے چمچے منہ میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کو خلفائے راشدین جیسی سادگی اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ہم جیسے عشروں سے وفاداریاں نبھانے اور قربانیاں دینے والے رہنماؤں پر نئے آنے والوں اور خوشامدیوں کو ترجیح ملی ہوئی ہے جب کہ ناپسندیدہ رفیقوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ مرضی کے خلاف کی گئی بات قیادت سے برداشت نہیں کیونکہ ان کے کان صرف پسندیدہ اور خوشامدانہ باتوں اور قصیدوں کے عادی ہیں۔ جہاں اہم رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتے ہیں ہوں وہاں معمولی کارکنوں کو کون پوچھے گا، وہ جلیں یا خود کشی کریں، مرنا ہی ان کا مقدر بنا دیا جاتا ہے۔