یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی ملک یا ریاست کی معاشی ترقی میں خواتین کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں۔ آج پاکستانی عورت ملکی تعمیر و ترقی اور مختلف شعبہ ء ہائے زندگی میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی خواتین کے برابر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔خواتین تعلیم ،صحت ،سیاست ،کھیل،سماجی فلاح و بہبود اور دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرنے کے ساتھ اپنی قابلیت کا لوہا بھی منوا رہی ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنا دیا جائے تو پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ لاہور میں ڈاکٹر نثار احمد رانا آڈیٹوریم میں خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی خاتون اول اور صدر پاکستان کی اہلیہ بیگم ثمینہ علوی کا کہنا تھا کہ پاکستانی خواتین کسی بھی طرح ترقی یافتہ ممالک کی خواتین سے کم نہیں اور وہ سماجی اقدار اور روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
محترمہ ثمینہ علوی نے پاکستان میں خواتین کے حقوق و فرائض کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں خواتین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے مشکلات کا سامنا رہا ہے اور خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہونے کے با وجود اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ موجودہ حکومت نہ صرف خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے بلکہ صحت اور تعلیم کے مسائل سمیت خواتین کو وراثت میں حق دلوانے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ خواتین کو با اختیار بنانے اور انھیں معاشرے میں نمایاں
مقام دلوانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں جاری ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی عورت نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا میں اپنا نام پیدا کر سکے گی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبدالمنان خرم نے کہا کہ خواتین کے اعزاز میں تقریب کے انعقاد کا مقصد معاشرے میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ مشرقی روایات کی پاسداری کرنے والی پاکستانی عورت آج معاشرے کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ خاتون اول نے تقریب میں مختلف شعبہ زندگی میں خدمات سرانجام دینے والی سرگرم خواتین جن میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال ، ممبران صوبائی اسمبلی نیلم حیات ، سعدیہ سہیل ، زینب عمیر ، شہوانہ بشیر، ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی ڈاکٹربصیرہ عنبرین، کھیل کے شعبے میں سرگرم نگہت کوثر اور نیلم حیات شامل تھیں ، کو پہلے یونیک وویمن ایوارڈ سے نوازا۔ اس سے انکار نہیں کہ ہمارا مذہب اور آئین خواتین کو تمام بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور آج سے چودہ سو سال قبل خواتین کے حقوق کا تحفظ انکی عزت و احترام اور مذہبی حدود کو پیش نظر رکھ کر کاروبار تک کرنے کی سنہری مثال صرف اسلام ہی دے سکتا ہے۔ خواتین کا کردار اور لباس اْنکی عزت بڑھانے اور گھٹانے کا ایک اہم پیمانہ ہے اور اہم سب خواتین کو ہر حال میں اسلامی تعلیمات کو اپناتے ہوئے گھر کے اندر اور باہر خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ قوموں کی تعمیر و تشکیل اور اولاد کی بہترین تربیت میں اصل اور کلیدی کردار مائوں اور گھر کی بزرگ خواتین کا ہوتا ہے جس میں خرابی کا نتیجہ بچوں کے کردار میں واضح نظر آجاتا ہے۔
مردوں کو بھی خواتین پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں جائز آزادی ضرور دینا چاہیے تاکہ وہ ایک صحت مند ماحول میں رہ کر اپنی فطری اور ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں۔ آج کی تعلیم یافتہ خواتین انتظامیہ ،عدلیہ،ملٹری،ایئر فورس اور دیگر بے شمار اور قدرے مشکل شعبوں میں بھی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہی ہیں۔ گھریلواعتماد اور اچھی تربیت کی حامل خواتین ایک اثاثہ ہوتی ہیں اور ایسی خواتین ہی اصل معاشرتی بہتری کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔
اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس اسلام کی اعلی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں۔ اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی کردار کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔
اسلام عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ اگر گھر کے باہر کام عورت کے بنیادی فریضے یعنی بچوں کی تربیت اور کنبے کی نگہداشت سے متصادم نہیں ہو رہا ہے تو شائد یہ ضروری بھی ہو۔ کوئی بھی ملک گوناگوں شعبوں میں عورتوں کی افرادی طاقت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔