امریکا ضرورت پڑنے پر ہر فورم میں چین کا مقابلہ کرے گا، اینٹونی بلنکن

08:18 PM, 4 Mar, 2021

واشنگٹن: امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے چین کو صدی کا سب سے بڑا جیوپولیٹکل امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا ضرورت پڑنے پر ہر فورم میں چین کا مقابلہ کرے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ موسمیاتی تبدیلی اور عالمی وبا جیسے دنیا کو درپیش دیگر معاملات میں عسکری کارروائی اور تعاون کرے گی۔ ہم اکیسویں صدی کے سب سے بڑے جیو پولیٹیکل امتحان کا انتظام کریں گے، جو چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں۔

اینٹونی بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ ہانگ کانگ اور ایغور کے حقوق کی بات کریں گے اور اگر ایسا نہیں کیا تو چین مزید استثنیٰ کے ساتھ کام کرے گا۔ چین واحد ملک ہے جس کے ساتھ معاشی، سفارتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے حامل بین الاقوامی طاقتوں کو سنجیدہ امتحان کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مسابقتی ہوں گے اور جب حالات مختلف ہوں گے تو پھر معاملات بہتر ہو سکتے ہیں اور ہم چین کو طاقت کی بنیاد پر مصروف رکھیں گے۔ 

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا جوبائیڈن فوجی کارروائیوں سے گریز کریں گے حالانکہ گزشتہ ہفتے ہی جوبائیڈن نے شام میں ایرانی حمایت یافتہ باغیوں پر فضائی کارروائی کا حکم دے دیا تھا تاہم انہوں نے عراق میں ہونے والے تازہ حملے کا حوالہ نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ہم فوجی کارروائی اپنی اقدار، قانون اور امریکا کے عوام کی منشا کے مطابق اس وقت کریں گے جب ہدف اور مقاصد واضح اور قابل حصول ہوں اور یہ ہم سفارت کاری کے ذریعے مشترکہ طور پر کریں گے۔

واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے چین کو سنکیانگ میں نسل کشی ، تائیوان، ہانگ کانگ کے معاملات سمیت معاشی اور وبا سے متعلق تنقید کرتے ہوئے مختلف پاپندیاں عائد کر دی تھیں۔ امریکا نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چین کینگو سمیت متعدد چینی حکام کے ویزا پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ، ساتھ اثاثے بھی منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکا کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو چین نے مسترد کر دیا تھا لیکن ایغور مسلمانوں کو ووکیشل ایجوکیشنل سینٹرز بھیجنے کا اعتراف کیا گیا تھا جس کا مقصد انہیں مینڈیرن زبان اور کوئی ہنر سکھانا ہے تاکہ خطے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد جنم لینے والی علیحدگی پسندی کی لہر سے انہیں دور کیا جا سکے۔

مزیدخبریں