اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران پولیس اے ایس آئی خضر حیات عدالت میں پیش ہوا۔ عدالت نے خضر حیات کو ایک مقدمے میں جھوٹی گواہی دینے پر طلب کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے گواہ پر برہمی کا اظہار کیا اور مکالمہ کیا کہ آپ وحدت کالونی لاہور میں کام کر رہے تھے اور نارووال میں قتل کے مقدمے کی گواہی دے دی۔ حلف پر جھوٹا بیان دینا ہی غلط ہے اگر انسانوں کا خوف نہیں تھا تو اللہ کا خوف کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اللہ کا نام لے کر کہہ دیا کہ جھوٹ بولوں تو اللہ کا قہر نازل ہو شاید اللہ کا قہر نازل ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق آپ چھٹی پر تھے اور پولیس والے ہوکے آپ نے جھوٹ بولا جبکہ ہائیکورٹ نے بھی کہا کہ یہ جھوٹا ہے۔
عدالت کے اظہارِ برہمی پر خضر حیات کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عید کا دن تھا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ عید کے دن جھوٹ بولنے کی اجازت ہوتی ہے۔
معزز چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کہتا ہے جھوٹی گواہی پر عمرقید ہوتی ہے آج 4 مارچ 2019 سے سچ کا سفر شروع کر رہے ہیں۔ تمام گواہوں کو خبر ہو جائے اور بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔ آج سے جھوٹی گواہی کا خاتمہ کر رہے ہیں اور اس جھوٹے گواہ سے آغاز کر رہے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسلام کے مطابق بھی گواہی کا کچھ حصہ جھوٹ ہو تو سارا بیان مسترد کیا جاتا ہے۔ 1964 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج نے اس معاملے میں رعایت دی۔ رعایت کا مقصد یہ تھا کہ یہاں تو لوگ جھوٹ بولتے ہی ہیں اور اگر انصاف مانگتے ہیں تو پھر سچ بولیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جھوٹی گواہیوں نے نظام عدل کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ باپ بھائی بن کر حلف پر جھوٹ بولتے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے مقدمہ سیشن جج نارووال کو بھجواتے ہوئے جھوٹے گواہ خضر حیات کے خلاف دفعہ 1994 کے تحت کارروائی کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 13 فروری کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے خضرحیات کو طلب کیا تھا۔ عدالت نے جھوٹی گواہی کا نوٹس قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر لیا تھا۔ ملزم محمد الیاس کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔ محمد الیاس پر2007 میں ضلع نارووال کے علاقے میں آصف نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ٹرائل کورٹ نے محمد الیاس کو سزائے موت سنائی تھی۔