" پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہو گا" اس اعلان کے ہونے کی دیر تھی پاکستان کے چند کوتاہ بین سیاست دانوں نے گویا اس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بناتے ہوئے پوائنٹ اسکورنگ شروع کر دی اور اس معاملے کو بھی سیاست کی گندگی سے آلودہ کرنے کی کوشش کی جس کو لاہوریوں نے اپنی روائیتی زندہ دلی سے ناکام بنا دیا اور سوشل میڈیائی دانشوروں کی دانش کو کلین بولڈ کرتے ہوئے ٹکٹیں بھی خریدیں اور گھروں میں لاہوری کھابوں کےپروگرام بھی بنا ڈالے.اس لیے تو کہا جاتا ہےکہ"کیا بات ہے لاہور کی ، یا نہیں ریساں شہر لاہور دیاں"
لاہوریوں کی زندہ دلی اور کھابوں کا سارا زمانہ معترف ہے.لاہور کی اسی ثقافتی اور تاریخی روایات کی وجہ سے کہا جاتاہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا.اس شہر کو شاہان مغلیہ کا پایہ تخت ہونے کا بھی اعزاز حاصل رہا چنانچہ دہلی اور لاہور کا مزاج بہت مماثلت رکھتا ہے لیکن اس کے با وجود لاہور کی کیا بات ہے اس کا اعتراف تو خود دہلی والے بھی کرتے ہیں.
قطع نظر سیاسی گرما گرم بحثوں کے لاہور اپنی تمام تر تہزیبی اور ثقافتی روایات کے ساتھ اپنے زندہ دل باسیوں سمیت پی ایس ایل فائنل کا بڑی شدت سے منتظر ہے.ہر دفتر,گلی محلے کے ڈھابے,بازار,دکان,محفل میں پی ایس ایل کا فائنل موضوع گفتگو ہے.ہم تو خیر پیدائیشی لاہورئیے ہیں اس لئے یہاں کے لوگوں کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمام لوگ جو اصل لاہورئیے ہیں لاہور میں اس فائینل کے انعقاد پر بہت خوش ہیں اور اس کا بر ملا بڑے فخر سے اظہار بھی کر رہے ہیں کیونکہ یہ نفسیاتی بات ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو تعجب تب ہوتا تاہم وہ تمام لوگ جو سیاست کو کھیل پر ترجیح دیتےہیں یا وہ لوگ جو لاہورئیے نہیں ہیں اور غم روزگار کےسلسلہ میں یہاں مقیم ہیں ان کے مزاج تو بہت ہی برہم ہیں.
لیکن ہم ایسی باتیں سننے کے کالج اور خاص طور پر یونیورسٹی سے ہی عادی ہیں جب ہم ڈے سکالرز کے بارے میں نہ جانے کیا کیا کہا جاتا تھا.دراصل اگر کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے اور اس پر سیاست نہ کی جائے تو بہتر ہوتا ہے.پی ایس ایل کی تمام ٹکٹیں فوری بک گئیں.جنرل اسٹینڈ والی پانچ سو والی ٹکٹوں کا مسئلہ میڈیا میں سننے میں آرہا تھا وہ بھی کل ہم نے ایک دوست کے ہاتھ میں دیکھیں جو بقول اس کے آرام سے مل گئیں.کہا جا رہا ہے کہ ٹکٹیں بلیک میں مل رہی ہیں پانچ سو والے ٹکٹ پانچ ہزار میں فروخت ہوئے.جناب پھر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں.یہ تو ہماری قوم کا عمومی رویہ ہے.اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں درخوست بھی کی گئی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہکوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیالاہورئیے تو اس خبر پر بھی بہت خوش ہوئے کہ شہباز شریف نے اپنے کوٹے کے تمام ٹکٹ دانش اسکول کے بچوں میں تقسیم کر دئیے.
جدھر بھی جائیں تو 'جدھر نظر ہے کہ تم ہو' کے مصداق ہر طرف بس پی ایس ایل کے فائنل پر بات ہو رہی ہے.میڈیا پر سنتے ہیں تو یوں گمان ہوتا ہے کہ لاہور میں گویا کرفیو لگا ہے.
آج میرے بیٹے احمد کا میٹرک کا پرچہ تھا اور اتفاق سے قذافی اسٹیڈیم کے پڑوس میں ہی رہتا ہوں.بچے کو چھوڑنے بھی گیا اور لےکر بھی آیا ایمان کی بات ہے کہ سوشل میڈیائی خبروں سے ہماری بیگم بہت گھبرائی ہوئی تھیں کہ باہر نہ جانے کیا حالات ہیں. انہوں نے نہ جانے کیا کیا پڑھ کر ہم پر پھونکا اور ہمیں اللہ کی رحمت کے سپرد کر کے رخصت کیا.ہم بھی گویا کسی محاذ جنگ کی طرف رواں دواں تھے باہر نکلے تو کونسا کرفیو اور کونسے ہنگامی حالات. ہر چیز نارمل تھی.
ہماری نئی نسل کا المیہ ہی اب سوشل میڈیا بنتا جا رہا ہے.خیر ہم بتا رہے تھے کہ اہل لاہور پی ایس ایل کے فائنل کو کسی تہوار کی طرح منانے کی تیاری کر چکے ہیں .ہر گھر میں بڑی سکرین پر میچ دیکھنے کے ساتھ ساتھ زبردست لاہوری کھابوں کے مینیو بھی فائنل ہو چکےہیں، رہا اس بات کا کہ سارا لاہور بند کر کے فائنل کروانا کون سی عقلمندی ہے ان عقل کے اندھوں کو کوئی یہ بتلائے کہ جب ہم اپنے گھروں میں جب کسی محفل کا اہتمام کرتے ہیں اور مہمان بلواتےہیں تو کیا اس وقت ہمارے گھروں میں کرفیو کی سی کیفیت نہیں ہوتی تمام معمول کے راستے امی جان کے حکم پر بند کر دئیے جاتےہیں میلاد سے ملحقہ کمروں میں جانا ممنوع ٹھہرتا ہےکیونکہ مہمان مقدم ہوتےہیں تو جناب لاہور میں اس ایونٹ کے انعقاد کو بھی ایسا ہی سمجھیں اور اللہ کریم سے اس کی رحمت مانگیں اور اپنے سیکورٹی اداروں پر اعتماد کریں اور دشمن کے پاکستان کو کمزور کرنے کے عزائیم کامیاب نہ ہونے دیں.
ایک لاہوری ڈرائیور نے تو کمال ہی کردیا اس کو پی ایس ایل فائنل کے چار ہزار مالیت والے چار ٹکٹ اپنے رکشے کی پچھلی سیٹ پر ملے اور وہ مالک کو تلاش کرتا رہا.
کیا بات ہے جناب ہمارے شہر لاہور کی اسی لیے تو اس شہر کی کوئی" ریس" نہیں کر سکتا.
صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،
محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں