سارے مسئلے بہتر طریقے سے حل ہو جاتے اگر تحریک انصاف پارٹی الیکشن کروا دیتی، چیف جسٹس

02:21 PM, 4 Jun, 2024

نیوویب ڈیسک

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے  کیس  کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹبراہ راست سماعت ہوئی۔ جس پیں چیف جسٹس  نے ریماکس دیے کہ سارے مسئلے بہتر طریقے سے حل ہو جاتے اگر تحریک انصاف پارٹی الیکشن کروا دیتی۔

سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت آج پھر  سپریم کورٹ میں ہو ئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 13 ججز پر مشتمل فل کورٹ سماعت کی۔

 جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔

 سنی اتحاد کونسل اور اسپیکر کے پی اسمبلی کی اپیلوں پر سماعت ساڑھے گیارہ ہوئی،سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل دیے ۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ آئین کے مطابق آزاد امیدوار تین دن میں سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔انتخابات میں حصہ نہ لینے پر سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی،سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کیلئے دیگر جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔

 وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کی درخواست انتخابات نہ لڑنے اور فہرست جمع نہ کرانے پر خارج ہوئی، الیکشن کمیشن نے تمام نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیں۔ سنی اتحاد میں شمولیت غلط قرار دینے کی حکومتی جماعتوں کی استدعا پر کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت درست مانتے ہوئے ہی اسے پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے؟  جس پر ، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہر سیاسی جماعت کی پارلیمانی پارٹی الگ سے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید اتفسار کیا کہ کیا آئین میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کو الگ لکھا گیا ہے؟ جس پر  فیصل صدیقی 

نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے، جس جماعت کی اسمبلی میں کوئی نشست نہ ہو وہ سیاسی جماعت ہوگی پارلیمانی نہیں، آٹھ فروری کو سنی اتحاد سیاسی جماعت تھی ارکان کی شمولیت کے بعد پارلیمانی جماعت بن گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ جسٹس منیب اختر 

 نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا،کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے۔

 جسٹس منیب اختر  نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہونگے۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، 

چیف جسٹس نے کہا کہ  اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ 

جسٹس عائشہ ملک  نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، انتخابی نشان کا مسئلہ خود الیکشن کمیشن کا اپنا کھڑا کیا ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیکر اپنے کھڑے کیے گئے مسئلے کا حل نکالا۔

چیف جسٹس  نے ریماکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کیلئے رجوع کیا تھا؟ جس پر  فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی مسترد ہونے پر آرڈر چیلنج بھی کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کیلئے ہے، انتخابی نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے۔جسٹس منیب اختر  نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔

فیصل صدیقی  نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جسٹس منیب اختر  نے کہا کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔ جسٹس عائشہ ملک  نے کہا کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔  

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا  کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی، بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟جس پر فیصل صدیقی  نے جواب دیا کہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا، فیصل صدیقی 

چیف جسٹس نے استفار کیا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟  جس پر فیصل صدیقی  نے جواب د یا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟  جس پر فیصل صدیقی  نے جوعاب دیا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہرنے ریماکس دیے کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ بہت مضبوط توجیہات ہیش کی جا رہی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بلے کے نشان کو ختم کیا گیا تھا یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ  جسٹس منیب کے مطابق بلے کے نشان ختم ہونے کے باجود امیدواروں نے پی ٹی آئی امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑا۔

فیصل صدیقی  نے کہا کہ سر یہ ہی ہم کرنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے ختم کردیا،  جس پر چیف جسٹس   نے کہا کہ ہم کرنا چاہتے تھے کیا مطلب۔ فیصل صدیقی  نے جواب دیا کہ  میں سنی اتحاد کونسل کے ہر ممبر کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس  نے ریماکس دیے کہ کل اختلاف آسکتا ہے وہ کہیں ہمارے ممبرز ہیں یہ کہیں ہمارےفیصل صدیقی صاحب کی دشواری سمجھیں کیا ہے، آپ ممبران خود کو تحریک انصاف کے ممبران ثابت کرنا چاہتے تھے۔قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کروائیں، جسٹس یا تو کہہ دیں قانون پر مت عمل کرو۔ ہم نے آپ کو کیس کے دوران بھی مشورے دیئے تھے جن پر عمل نہیں کیا گیا، جب آپ نے کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کے امیدوار کا نام دے دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریماکس دیے کہ آپ اس وقت سنی اتحاد کونسل کے ممبران ہیں، اب سیٹیں تحریک انصاف کو تو جانی ہی نہیں۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی  نے جواب د یا کہ سارے مسئلے بہتر حل ہوتے اگر سپریم کورٹ کی فیصلے کے ساتھ کچھ چیزوں کی وضاحت ہو جاتی۔

چیف جسٹس  نے ریماکس دیے کہ سارے مسئلے بہتر طریقے سے حل ہو جاتے اگر تحریک انصاف پارٹی الیکشن کروا دیتی۔

جسٹس اطہر  نے ریماکس دیے کہ  اصل سٹیک ہولڈرز ووٹر ہیں، سب سے اہم حق ووٹ کا ہے۔ دوران سماعت جسٹس اطہر 

 نے کہا کہ پلیز مجھے مکمل کرنے دیں،ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا ایک وقت ہر سیاسی جماعت کو ایسی شکایت تھی۔فیصل صدیقی  نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایشو الیکشن، جمہوریت اور ووٹر کی نمائندگی کا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس 24 جون تک ملتوی کر دیا۔ 

یاد رہے کہ عدالت نے پی ٹی آئی امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا ریکارڈ  بھی طلب کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

مزیدخبریں