لاہور : سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس کا کہنا ہے کہ 9 مئی جیسے احتجاج کی عمران خان کی طرف سے کوئی کال نہیں تھی صرف پر امن احتجاج کی کال تھی۔ دوبارہ موقع ملا تو پرویز الٰہی کے ساتھ ضرور کام کروں گا ۔ میرا نام بھی ای سی ایل میں ہےآئندہ کی سیاست کے لیے مختلف جگہوں سے فون کالز آرہی ہیں ۔ پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت کا اشارہ بھی دیا۔
نیو ویب سائٹ ’’وی نیوز ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس نے کہا کہ تحریکِ انصاف سے راہیں جدا کرنا مشکل کام تھا۔ جو 9 مئی کو ہوا اس کے بعد حالات ہی بدل گئے۔
مراد راس نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ ہم 15 سال سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن جب بات ملک کی سلامتی کی آجائے تو پھر فیصلہ لینا پڑتا ہے۔ میں اپنے ملک کو جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور شہداء کے مجسمے توڑ دیے جائیں۔ تو یہ سب برداشت سے باہر تھا۔ اس لیول کی سیاست کرنے کے لیے میں نے سیاست جوائن نہیں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ برداشت کرنا انتہائی مشکل ہے کہ میں اپنے ملک کو جلتا دیکھوں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ خان صاحب کی طرف سے احتجاج کی کال ضرور تھی لیکن اس طرح کے احتجاج کے حوالے سے مجھے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے احتجاج کے حوالے سے میں بے خبر تھا، مجھے تو یہ تک معلوم نہیں کہ پارٹی میٹنگز کب ہوئیں اور یہ لائحہ عمل کب طے کیا گیا، کب تمام فیصلے ہوئے کہ کن جگہوں پر جا کر احتجاج کرنا ہے۔ میں ان تمام فیصلوں کا حصہ نہیں تھا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سارے اور لوگ بھی اس میں شامل نہیں تھے۔
اس سوال پر کہ ’کیا ڈاکٹر یاسمین راشد 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھیں؟‘ ڈاکٹر مراد راس کا کہنا تھا کہ میں اس بات سے بھی لا علم ہوں کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو کیا کالز موصول ہوئیں اور کس نے یہ سب کرنے کو کہا۔ سابقہ صوبائی وزیر برائے صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی آیڈیو لیکس بھی سامنے آئیں لیکن جتنا میں ان کو جانتا ہوں اگر وہ اس احتجاج میں ملوث تھیں تو ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ باقی میں نہیں جانتا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اس حملے کی قصور وار ہیں یا نہیں۔
اعجاز چوہدری کے حوالے سے بھی ڈاکٹر مراد راس نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ میں اس احتجاج کے حوالے سے کچھ نہیں جانتا تھا، باقی پاکستان تحریکِ انصاف کی سینیئر قیادت کو کوئی ہدایات ملیں تو اس سے میں ناواقف ہوں۔ اگر اسپیشل ہدایات کے حوالے سے کوئی میٹنگ ہوئی تھی تو اس میں مجھے نہیں بلایا گیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں کہ ’کیا مراد راس دوبارہ پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ بنیں گے؟‘ انہوں نے بتایا کہ پاکستان تحریکِ انصاف میں دوبارہ شمولیت کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
ن لیگ میں شمولیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ 14 مئی کو ہونے والے انتخابات مین ان کے مدِ مقابل حنا پرویز بٹ نے ہونا تھا۔ حنا پرویز بٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اللہ ان کی ہدایت کرے۔
سابق وزیر فیاض الحسن چوہان کے حوالے سے ڈاکٹر مراد راس کا کہنا تھا کہ ان کو پارٹی کی اندرونی باتیں سر عام نہیں بتانا چاہیے تھیں، لیکن اگر انہوں نے بتائی ہیں تو ان کی مرضی ہے شاید ان کو اپنا غصہ تھا۔ سب کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے اس لیے انہوں نے جو بھی بولا ان کی مرضی تھی۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حوالے سے سوال پر مراد راس کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ عثمان بزدار بشریٰ بی بی کا پریشر لیتے تھے یا نہیں کیونکہ انہوں نے ایسی کسی بھی بات کا ذکر میرے ساتھ نہیں کیا۔
عثمان بزدار کیسے وزیرِ اعلیٰ تھے؟ کے جواب میں مراد راس کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ وہ کیسے وزیرِ اعلیٰ تھے۔اگر لوگ کہتے ہیں کہ وہ اچھے تھے تو اچھے ہوں گے۔ لیکن میں اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا۔
عثمان بزدار کے حوالے سے واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہ مجھے عثما ن بزدار سے کوئی مسئلہ تھا نہ ان کو مجھ سے۔ اس لیے ان کے ساتھ تعلق اچھا تھا۔
مراد راس کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی ایک سمجھدار اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور آگے بھی سیکھتا رہوں گا۔ پرویز الٰہی کے ساتھ میرا بہت بہترین تعلق رہا۔ پرویز الٰہی کا سلوک اپنی کابینہ اور دیگر لوگوں کے ساتھ بہترین تھا۔
مراد راس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں ان کے تجربے سے سیکھوں کیونکہ ان کا تجربہ سیاست میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ اگر اللہ نے دوبارہ موقع دیا تو چوہدری صاحب کے ساتھ دوبارہ کام ضرور کروں گا۔
عمران خان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکتر مراد راس کا کہنا تھا کہ میں کسی کا نام نہیں لو ں گا لیکن جب سے عمران خان لاہور میں تھے ایک گروپ مل کر ان کے کان بھرتا تھا اور آج انہی لوگوں کی وجہ سے آج پارٹی اس نہج پر پہنچ گئی ہے۔
پچھلے6 مہینے سے عمران خان کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں نے معاملات بے حد خراب کیے۔ ان کو عجیب و غریب مشورے دیے، جس کی وجہ سے آج پارٹی کا حال برا ہو ا ہے۔ اپنی گفتگو میں محتاط رہتے ہوئے انہوں پاکستان کی سینیئر قیادت کے نام لینے سے گریز کیا۔
مراد راس کا کہنا تھا کہ ان پر متعدد کیسز ہیں جن میں اینٹی کرپشن، ایف آئی اے اور دہشت گردی کے پرچے بھی شامل ہیں۔ ایسا کون سا پرچہ ہے جس میں مَیں نامزد نہیں ہوں۔ اور یہ کیسز کب تک چلیں گے نہیں جانتا۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ پریس کانفرنس کروں گا اور باہر کے ملک چلا جاؤں گا۔
مراد راس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا نام ای سی ایل میں ہے لہٰذا وہ ملک سے باہر بھی نہیں جا سکتے۔ ملک سے باہر جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں ملک سے باہر کیوں جاؤں گا، یہ ہمارا ملک ہے ہم اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔
اعجاز چوہدری اور محمود الرشید کے ڈٹے رہنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا ساتھ دینے والوں کی اپنی مرضی ہے کہ وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سب جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کون کس لیے ڈٹا ہوا ہے اور کون کس لیے جیل میں ہے۔ اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ بعد میں میرے بیان اور ویڈیو کلپس بھی چلیں کہ میں نے پہلے کیا کہا تھا کیا نہیں، اس لیے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔
عمران خان اور شاہ محمود کے پارٹی لیڈ کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ اس پر دیکھنا پڑے گا کہ کون عمران خان کی جگہ لے گا اور سابق پی ٹی آئی ممبران کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔بہت جلد سب سامنے آ جائے گا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا ساتھ دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے اور میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا۔ اگر کوئی فیصلہ لوں گا تو بہت سوچ سمجھ کر لوں گا