کچھ سیاستدان ، کچھ حکمران اپنی فطرت کے عین مطابق ہر طرح کی جو گندگی اور آلودگی اس ملک میں گزشتہ ستر برسوں سے بڑھا اور پھیلا رہے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ ماہ سے جس کی انتہا ہو گئی ہے سچ پوچھیں میں اب واقعی گھبرا گیا ہوں۔ میری گھبراہٹ کا ذرا اندازہ لگائیں میں خان صاحب کی پونے چار سالہ ناقص حکمرانی سے اتنا نہیں گھبرایا تھا جتنا اب گھبرا گیا ہوں۔ سو جس وقت آپ میرا یہ کالم پڑھ یا سن رہے ہوں گے میں جہاز میں ہوں گا۔ میں دو تین ماہ کے لئے امریکہ کینیڈا اور دیگر ممالک کے سفر پر جا رہا ہوں۔ وہاں کئی طرح کی خوبصورتیاں، ندیاں ، دریا ، سمندر ، آسمانوں کو چھوتے ہوئے پہاڑ ، آنکھوں کی بینائی بڑھانے والا سبزہ ۔ سب سے بڑھ کر میرے عزیز رشتہ دار میرے جانثار دوست میرے منتظر ہیں۔ گو کہ میری بیگم بھی ساتھ جا رہی ہیں اس کے باوجود میں یہ توقع کرتا ہوں میرا یہ سفر بہت خوشگوار گزرے گا۔ خوشیوں کے بے شمار مواقع مجھے میسر آئیں گے جن کے لئے پچھلے کئی دنوں سے میں ترس گیا ہوں ۔ یہاں اب صرف شر ہی شر ہے۔ خیر کی خبر سننے کو کان ترس جاتے ہیں۔ ساری دنیا میرے رب کی ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ میرے نزد یک وہ لوگ بڑے بدقسمت ہوتے ہیں جن کے پاس بے شمار پیسہ ہو ، سہولتیں ہوں ، اس کے باوجود وہ دنیا دیکھنے سے محروم رہیں۔ بے شمار لوگوں نے یہاں خود کو پیسہ بنانے کی ایک مشین بنائے رکھا ہوا ہے۔ زندگی کو انجوائے کرنے کا کوئی تصور تک ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ یقین کریں میں جب یورپ ، امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور ایسے بے شمار ملکوں میں جاتا ہوں ، وہاں کی خوبصورتیاں خصوصاً وہاں کے لوگوں کے اخلاقی رویوں سے میں اس قدر متاثر ہوتا ہوں ایک لمحے کے لئے مجھ پر یہ احساس غالب آ جاتا ہے۔ جیسے ’’میں پاکستان‘‘ میں فوت ہو گیا تھا۔ اللہ نے مجھ پر ترس کھا کر میرے گناہ بخش دیئے۔ اب میں جنت میں ہوں۔ پاکستان بھی کم خوبصورت نہیں ہے مگر ہم سب نے ایسا ایسا گھنائونا کردار ادا کیا ایک جنت کو اللہ جانے کیا بنا کر رکھ دیا ہے؟ میں یہ کالم اپنا غم غلط کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جائوں گا کہ اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کی بوٹیاں نوچنے سے لیکر ہڈیاں چوسنے تک کے سانحے کے ذمہ داران یا اصل ذمہ داران کون ہیں؟ اس پر کالم نہیں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ دو تین ماہ پہلے میں جب یورپ ، آئر لینڈ ، برطانیہ ، عمان اور یو اے ای کے اڑھائی ماہ کے دورے پر گیا تب بیگم میرے ساتھ نہیں تھی۔ میرے مرحوم دوست دلدار پرویز بھٹی کہتے تھے۔ بیگم کو صرف حج اور عمرے پر ہی ساتھ لے جانا چاہئے۔ سو اس سفر میں بیگم ہمیشہ میرے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ البتہ اب سعودی عرب جتنا ’’ماڈرن‘‘ ہوتا جا رہا ہے مستقبل میں سوچنا پڑے گا یہ سفر بھی بیگم کے ساتھ کرنا چاہئے یا نہیں ؟ ۔ ویسے بیگم جہاں بھی ہو بیگم ہی ہوتی ہے۔ میں ایک بار عمرے کی سعادت مکمل کر کے خانہ کعبہ کے صحن کے ایک کونے میں بیٹھا بڑی محبت ، عقیدت اور آنسو بھری آنکھوں سے حجرہ اسود کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ ساتھ بیٹھی بیگم نے چند لمحوں بعد اچانک بڑے زور سے مجھے ’’موڈا‘‘ مارا کہنے لگی ’’اب تھوڑا میری طرف بھی دیکھ لیں‘‘۔ یہ عقیدت اور محبت بھی بیگمات سے برداشت نہیں ہوتی۔ کینیڈا اور امریکہ میں تقریباً تین سالوں بعد جا رہا ہوں۔ کینیڈا میں میرا سسرال ہے اور امریکہ میں میرے بے شمار عزیز دوست خصوصاً میرے بے شمار ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹس میرے منتظر ہیں۔ کووڈ سے پہلے میں ہر سال بچوں کو لیکر کینیڈا جاتا تھا۔ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں۔ اب وہ اپنی مرضی سے ہی کہیں آتے جاتے ہیں۔ وہ جب چھوٹے تھے تب بھی میں نے کبھی ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی تھی۔ بس مختلف معاملات میں انہیں مشورہ دیتا تھا یا گائیڈ کرتا تھا۔ ان کی مہربانی اب تک وہ میرے مشوروں اور گائیڈنس کے مطابق ہی چلے۔ خود بھی اچھی زندگی گزاری مجھے بھی کبھی دکھ نہیں دیا۔ بیٹی ابھی پڑھ رہی تھی ہم نے اس کی شادی کر دی۔ اب اس کا ایک بیٹا ہے جو اپنی بیٹی سے بڑھ کر مجھے عزیز اور پیارا ہے۔ جنوری میں بیٹے کی شادی ہے۔ دو بچے ہیں ۔ دونوں کے رشتے طے کرنے سے پہلے ان سے پوچھا تھا ’’کوئی پسند ہے تو بتا دیں؟‘‘۔ دونوں نے یہ معاملہ والدین پر چھوڑ دیا۔ بیٹی ابھی چند روز پہلے اپنے میاں کے ساتھ کچھ خوبصورت ممالک کا سفر (دورہ) کر کے واپس آئی ہے۔ بیٹا اپنے بزنس میں اس قدر مصروف ہے فی الحال پاکستان سے باہر جانے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس بار دونوں نے ساتھ جانے سے معذرت کر لی ہے۔ اس بار صرف بیگم ہی ساتھ جا رہی ہے ۔ جہاز میں ہماری سیٹیں بھی اکٹھی ہیں۔ اوپر سے جہاز میں اسے نیند بھی نہیں آتی۔ چنانچہ اس بار جہاز میں ایئر ہوسٹس خوبصورت ہوں یا بدصورت مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے اس موقع پر ایک بڑا دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک بار میں اور دلدار پرویز بھٹی مرحوم لاہور سے کراچی جا رہے تھے ۔ ایک خوبصورت ایئر ہوسٹس جب اس کے قریب سے گزری ، وہ اس سے کہنے لگا ’’سینئے میری اگلی سیٹ ہے ، جہاز بھی ذرا تنگ سا ہے۔ میرے قریب سے گزرتے ہوئے اگر آپ کو میرا ’’موڈا‘‘ یا ’’گوڈا‘‘ لگ جائے آپ نے برا نہیں منانا‘‘۔ ایئر ہوسٹس نے برا سا منہ بنا کر دلدار بھٹی کی طرف دیکھا اور جواب دیا ’’آپ جیسے جو شوخے مسافر ہوتے ہیں ناں ان کے اوپر گرما گرم چائے بھی گر جاتی ہوتی ہے‘‘۔ میں دلدار بھٹی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ایئر ہوسٹس کا یہ جواب سن کر وہ مجھ سے کہنے لگا ’’توفیق توں ایدھر میری سیٹ تے آ جا‘‘ لاہور سے ٹورنٹو تک کا ڈائریکٹ سفر تقریباً پندرہ سولہ گھنٹے کا ہے۔ یہ پی آئی اے کی ڈائریکٹ فلائٹ ہے۔ لاہور سے ٹورنٹو تک ڈائریکٹ فلائٹ کی سہولت چونکہ کوئی اور ایئر لائن فراہم نہیں کرتی لہٰذا مجبوراً لوگوں کو پی آئی اے سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ میں کسی بھی سفر پر جانے سے پہلے عموماً ایک بکرا صدقہ کا دیتا ہوں ، لیکن اگر میں نے پی آئی اے سے سفر کرنا ہو ایک بکرا اضافی صدقے کا دے دیتا ہوں کہ چلیں اگر ایک بکرے کا صدقہ قبول نہ ہوا دوسرے کا تو ہو ہی جائے گا۔ ان دنوں کچھ ایسی مصروفیات تھیں دو تین مہینے کے لئے بیرون ملک جانا میرے لئے ناممکن تھا۔ مگر میں گھبرا گیا ہوں۔ جو حالات اس وقت ملک کے بنے ہوئے ہیں سیاست کی گندگی کے علائوہ نہ کوئی آپ کی بات سنتا ہے نہ کوئی آپ سے بات کرتا ہے۔ اگلے روز میں پی آئی سی میں دل کے ایک مریض کی عیادت کے لئے گیا۔ اسے آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔ میں اس کے پاس کھڑا اس کی صحت کے لئے دعا کر رہا تھا۔ اچانک اس نے اپنا آکسیجن ماسک ہٹایا اور مجھ سے پوچھنے لگا ’’بٹ صاحب اے حکومت رے گی یا نئیں؟‘‘ ۔ میں نے سر پکڑ لیا ۔ میں نے کہا ’’بزرگو تسی مرنے پئے او تسی اپنی فکر کرو تہانوں حکومت دی پئی ہوئی اے‘‘ ۔ میں خان صاحب کی پونے چار سالوں کی حکومت میں اتنا نہیں گھبرایا حالانکہ اس دوران میرے پاس گھبرانے کا اچھا خاصا مواد تھا مگر اپنے اقتدار کھو جانے کے صدمے سے نڈھال ہو کر ذہنی توازن تقریباً کھو جانے کے بعد وہ ملک کا جو خوفناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ میں اب گھبرا گیا ہوں۔ اپنی گھبراہٹ کچھ کم کرنے کے لئے فوری طور پر مجھے یہاں سے نکلنا پڑ رہا ہے!!