ایمسٹرڈم، ہالینڈ میں والدین ٹک ٹاک کے خلاف عدالت میں چلے گئے ۔ والدین کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک بچوں کی پرائیویسی کے لئے اقدامات نہیں اٹھا رہا اس کے علاوہ بلااجازت بچوں کا ڈیٹا جمع کررہا ہے
تفصیلات کے مطابق ہالینڈ اور یورپی یونین کے دیگر ممالک کے چونسٹھ ہزار والدین کی نمائندگی کرنے والے ادارے مارکیٹ انفارمیشن ریسرچ سینٹر (ایس او ایم آئی ) نے ایمسٹرڈیم کی ایک عدالت میں درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹک ٹاک بچوں کی پرائیویسی اور ان کے تحفظ کے لیے کافی اقدامات نہیں اٹھا رہا۔
ایس او ایم آئی فاؤنڈیشن نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹک ٹاک بنا اجازت بچوں کا ڈیٹا جمع کر رہا ہے، ادارے کے وکیل ڈوو لینڈرز نے عدالت کو بتایا کہ چینی سوشل میڈیا ایپ ضرورت سے زیادہ ڈیٹا جمع کرتی ہے، جو یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہے، درخواست میں معروف سوشل میڈیا ایپلی کیشن کو 1.4 ارب یوروز یعنی 1.7 ارب ڈالرز کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایس او ایم آئی فاؤنڈیشن نے جو 1.4 ارب یوروز کا دعویٰ کیا ہے، اس کا تخمینہ پچیس مئی دو ہزار اٹھارہ سے اب تک مختلف عمر کے بچوں کو پہنچنے والے نقصان کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
فاؤنڈیشن نے اپنی درخواست میں کہا کہ ٹک ٹاک پر دنیا بھر میں خطرناک چیلنجز پورے کرنے کی کوشش میں کئی بچے مارے گئے ہیں۔ مثلاً “بلیک آؤٹ چیلنج”، جس میں ٹک ٹاکرز کو چیلنج دیا گیا تھا کہ وہ اپنا سانس روکیں، یہاں تک کہ ہوش کھو بیٹھیں۔ وکیل لینڈرز کا کہنا ہے کہ اگر اس سے موت واقع نہ بھی ہو تو ایسے خطرناک گیمز اور چیلنجز بچوں کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔
ایس او ایم آئی فاؤنڈیشن کے وکیل عدالت میں یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ٹک ٹاک ذاتی ڈیٹا کا استعمال کس طرح کرتا ہے؟ ان کا موقف تھا کہ ذاتی اشتہارات اور ڈیٹا کی امریکا و چین منتقلی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں، اس کے علاوہ یہ ایپ باقاعدہ اجازت بھی نہیں لیتی، جس کے باعث سولہ سال سے کم عمر کے افراد اپنے والدین کی اجازت کے بغیر ٹک ٹاک پر با آسانی پروفائل بنا سکتے ہیں۔
جبکہ ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ نو عمر افراد کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ مثلاً اسمارٹ فون ایپ کہتی ہے کہ وہ 13 اور 15 سال کی عمر کے بچوں کے اکاؤنٹس کو ڈیفالٹ میں پرائیوٹ رکھتا ہے، یعنی اجنبی افراد ان بچوں کی فیڈ نہیں دیکھ سکتے، اس کے علاوہ ماڈریٹرز بھی ہیں جو نامناسب وڈیوز کو مستقل آف لائن کرتے رہتے ہیں، ان کے بنانے والے کے اکاؤنٹ بند کرتے ہیں اور دیکھنے والوں کو وڈیو رپورٹ کرنے کا آپشن بھی دیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ نامناسب وڈیو سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹک ٹاک ‘بائٹ ڈانس’ کی ملکیت ہے اور دنیا بھر میں تقریباً 70 کروڑ صارفین رکھتی ہے، یہاں تک کہ اب نیوز چینل بھی اس پلیٹ فارم کو استعمال کر کے اپنی خبریں پیش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ دوہزار انیس میں امریکا میں بھی ٹک ٹاک کے خلاف تحقیقات کی گئی تھیں، جس میں اس سوشل میڈیا ایپ پر پابندی لگانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی، البتہ عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، اس کے مقابلے میں پاکستان میں متعدد بار ٹاک ٹاک پر پابندی لگ چکی ہے، لیکن بعد میں یہ پابندی ختم کردی گئی تھی۔