ابوجہ: عراق کے سابق مصلوب صدر صدام حسین کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تبصرے، تجزیے اور رپورٹس ان کی موت کے کئی سال بعد بھی جاری ہیں۔ اسی ضمن میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں عراق کے سابق مرد آہن کی امریکی قید میں زندگی کے آخری ایام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
صدام حسین کے امریکی قید میں زندگی کے آخری ایام اور اس عرصے میں ان کے معمولات کی تفصیلات پر مبنی کتاب ایک امریکی سیکیورٹی اہلکار ’ویل بارڈ نویرپر‘ نے قلم بند کی ہے۔ نویرپر عراق میں قائم امریکی جیل میں صدام حسین کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں میں شامل تھا۔
فاضل مصنف اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ سنہ 2006ء میں پھانسی پانے سے قبل صدام حسین رغبت سے کیک کھاتے، جیل کے باغیچے میں باغ بانی کرتے اور امریکی پاپ گلوکارہ میری جی بلائج کو سنتے تھے۔
صدام حسین کے قریب رہنے اور ان کی معمولات پر نظر رکھنے والے امریکی فوجی اہلکار لکھتے ہیں کہ عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہونے سے قبل صدام حسین ریڈیو پر امریکی گلو کارہ کے گانے سنا کرتے۔ انہیں بلائگ کا گانا’Family Affair‘ زیادہ پسند تھا۔ وہ وقت کاٹنے کے لیے جیل کے اندر سائیکل بھی چلاتے۔
یہ کتاب امریکی ملٹری پولیس کی کمپنی 551 میں تھا جسے اس کی تعداد کے اعتبار سے ’سپر12‘ کہا جاتا ہے۔
ماضی کے برعکس
امریکی مصنف ’ویل پارڈنویر پر‘ نے اپنی کتاب ’اپنے محل کا قیدی۔ صدام حسین اور ان کے امریکی محافظوں کی ان کہی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں صدام حسین ماضی کے برعکس غیر معمولی حد تک مہذب ہوگئے تھے۔ وہ ماضی میں ایک خون خوار، قاتل اور آمر حکمران مشہور تھے مگر جیل میں ان کا طرز زندگی ان کی عملی زندگی سے بہت مختلف تھا۔
ویل لکھتے ہیں کہ سابق عراقی صدر معمولی بات بھی مان لیتے، قید کے لیے مقرر کردہ اپنی کوٹھڑی میں رہنے کو راضی رہتے اور اس پر کوئی شور نہ مچاتے‘۔
امریکی فوجی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ حیران ہے کہ سنہری ٹوائلٹ استعمال کرنے والا صدام حسین جیل میں ایک پھٹی پرانی کرسی پر پرسکون انداز میں بیٹھنے پر بھی مطمئن ہے۔ سورج طلوع ہوتے صدام حسین اپنی کرسی جیل کے باغیچے میں لے جاتے، پھولوں اور پودوں کی دیکھ بحال کرتے۔
کھانے میں بھی صدام حسین کی عادات بدل گئی تھیں۔ ناشتے میں ایک آملیٹ پر خوش رہتے۔ تاہم وہ کیک اور تازہ پھل بھی کھاتے۔ ناشتے میں وہ آملیٹ سے زیادہ کیک اور پھل پسند کرتے۔ اگر آملیٹ ان کا نہ بنا ہوتا فورا واپس کر دیتے۔
اپنے محافظوں سے تعلقات
جیل میں صدام حسین اپنے محافظوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں رہتے۔ محافظ انہیں اپنے گھریلو واقعات بتاتے۔ صدام حسین انہیں سنتے۔ دونوں طرف سے خوب گپ شپ رہتی۔
ایک دفعہ امریکی محافظوں نے صدام حسین سے بات چیت میں اپنے بچپن اور اسکول کے واقعات سنانے شروع کیے تو صدام حسین نے انہیں اپنے چھوٹے بیٹے عدی اور ان کے بچپن کے معمولات سنائے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ اپنے بیٹے پر اس وقت بہت برہم ہوئے جب اس نے اپنی تمام کاریں جن میں رولز رویس، فیراری اور پورشہ جیسی لگژری گاڑیاں تھیں نذر آتش کر دیں۔
امریکی سپاہی کا کہنا ہے کہ صدام حسین میں انہیں انسانیت کے لیے درد دل رکھنے والا شخص پایا۔
فوجی غم زدہ
صدام حسین کے بارے میں کتاب تصنیف کرنے والے امریکی فوجی اہلکار نے لکھا ہے کہ ’صدام حسین کی گرفتاری سے لے کران کی پھانسی تک شاید سب سے حیران کن بات ان کے لیے صدام کی پھانسی پر امریکی فوجیوں کا غم زدہ ہونا تھا۔ جب صدام کو پھانسی دی گئی تو ان کے ساتھ رہنے والے امریکی بھی غمگین ہوئے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ صدام حسین ان کے ملک کا بدترین دشمن ہے۔
امریکی سپاہی کے مطابق جب صدام حسین کی میت پھانسی گھاٹ سے باہر نکال کر مجمع عام میں رکھی گئی تو لوگ اس پر تھوکتے، اسے گالیاں دیتے حتیٰ لوگ میت کو ٹھڈے مارتے۔
اس کے مقابلے میں کئی ماہ تک صدام حسین کی سیکیورٹی پر مامور رہنے والے 12 امریکی فوجیوں کے جذبات مختلف تھے۔ لوگ صدام حسین کی میت پر غصہ نکال رہے تھے تو ایک امریکی فوجی نے مداخلت کی کوشش بھی مگر اس کے ساتھیوں نے اسے منع کر دیا تھا۔
امریکی فوجیوں میں سےجو جتنا صدام حسین کے قریب رہا تھا، اس کے مصلوب صدر کے بارے میں جذبات اتنے زیادہ غمگین تھے۔
ایک بار ملٹری ڈاکٹر نے صدام کے بھائی کی وفات کی خبر دی توصدام حسین اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے’میں تمہارا بھائی ہوں‘۔
ایک بار ایک محافظ کو کہنے لگے کہ اگر میں رہا ہوا اور میرے پاس پیسے ہوئے تو میں تمہارے بیٹے کے تعلیمی اخراجات ادا کروں گا۔
فاضل مصنف 272 صفحات کو محیط کتاب میں لکھتے ہیں کہ صدام حسین انتہائی سکون کے ساتھ سوتے مگر جب وہ بیدار ہوتے تو وہ کوئی اور ہی مخلوق لگتے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.۔