اسلام آباد: سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفکیشن دونوں ہی معطل کردیئے ہیں ۔ عدالت نے ٹریبونل کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے۔سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے امیدواروں نے چیف جسٹس پر اعتراض اٹھایا تاہم عدالت نے اعتراض مسترد کردیا۔
سپریم کورٹ میں ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ پر اعتراض اٹھا یا ۔ وکیل پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ہم اپنا اعتراض ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، کیس کو کسی اور بینچ میں بھیجا جائے۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجا سے سے استفسار کیا کہ ہم نے آپ سے پہلی سماعت پر پوچھ لیا تھا کہ کوئی اعتراض ہے ؟ آپ نے جواب دیا تھاکہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، کیوں نا نیاز اللہ نیازی کا کیس پاکستان بار کونسل کو بھجوا دیں؟عدالت بہت اسکینڈلائز ہوچکی ہے۔ عدلیہ کی تذلیل کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے؟ کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ آپ خود ججز منتخب نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ چیف جسٹس کو ہی علم ہوتا ہے کون کون سے جج دستیاب ہیں۔۔ الیکشن کمیشن کو کسی جج پر اعتراض تھا تو وجہ بتا سکتا تھا۔۔الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کر سکتا تھا، الیکشن کمیشن اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کیوں نہیں کر لیتا؟ بتائیں ابھی مشاورت میں کیا رکاوٹ ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہم نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو ملاقات خط لکھا ہے لیکن ابھی کوئی جواب نہیں آیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس کو کہا جاتا کہ کن علاقوں کے لیے ججز درکار ہیں وہ فراہم کر دیتے۔ کیا لازمی ہے کہ ملتان کے لیے لاہور سے جج جائے جبکہ وہاں پہلے ہی جج موجود ہے؟ پہلے اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات ہوتی تھی اب کیا ججز بھی اچھے برے ہوں گے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جو نام دیے وہ قبول کر لیے گئے، پنجاب میں الیکشن کمیشن نے کیوں مسئلہ بنایا ہوا ہے؟اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کے نکات سے مکمل متفق ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ کے متفق ہونے کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کا پہلا مؤقف درست نہیں تھا؟ کیا متفقہ طور پر ٹربیونلز کو کام جاری رکھنے اور حتمی فیصلہ نہ سنانے کا حکم دے دیں؟
عدالت نے آئندہ سماعت تک لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئےالیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے حکمنامہ میں کہا کہ بامعنی مشاورت سے دونوں یہ تنازع حل کر سکتے ہیں ۔نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد ہی مشاورت کا عمل ممکن ہوگا۔حتمی مشاورت تک درخواست زیر التوا ہی رہے گی۔