نوجوان صحافی بدرسعید ہمارے ان قابل فخر سپوتوں میں سے ایک ہے جو سوشل میڈیا پر ہونے والی فیک رپورٹنگ، شر انگیز پراپیگنڈا اور ملک دشمن دانشوروں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ وہ مسلسل اپنی پوسٹوں سے مغالطے اور ابہامات پیدا کرنے والے عناصر کے دانت کھٹے کرتا رہتا ہے۔ میں ایک عرصہ سے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے والے گروہوں سے برسر پیکار ہوں اور ان کی چالوں کو بھی سمجھتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ احساس بھی گھیرے رکھتا ہے کہ صرف میں ہی کیوں آخر ہمارے دانشور فکری ہتھیار کیوں ڈال چکے ہیں۔ ایسے میں جب بدرسعید جیسے کسی مرد حُر کی آواز بلند ہوتی ہے تو مجھے اپنی طاقت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ روزنامہ نئی بات کے کالم نگار اور معروف مزاح نگار حافظ مظفر محسن بھی اب سوشل میڈیا پر بہت ایکٹو نظر آنے لگے ہیں اور کئی دفعہ برف کے گولوں اور سلش کے درمیان فرق کے فلسفے پر روشنی ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو آج تک ادیب اور گولے کا فرق سمجھ نہیں آ سکا۔ سرکاری ملازموں کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زندگی بھر کُھل کے کسی موقف کے ساتھ کھڑا ہونا انہیں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے چاہے وہ ریٹائرڈ بھی ہو جائیں۔ لیکن اس کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ دوستوں کے دکھ درد میں سب سے پہلے شامل ہونا اور مدد کی انتہا کو چھو لینا مظفر محسن پر ختم ہے۔ بدر سعید کے ساتھ مظفر محسن کی دوستی دہائیوں پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدر سعید ایک نڈر اور بہادر صحافی کا کردار نبھاتا چلا آ رہا ہے کہ اس کے دوست مظفر محسن جیسے زیرک اور دانا ادیب ہیں۔
گزشتہ دنوں بدر سعید نے ایک اور علم حق بلند کیا ہے۔ خود اسی کے الفاظ میں ”لاہور میں ایک 40 سال کی مسیحی خاتون قتل ہوئی جو لمز کی ملازمہ تھی۔ آج اچانک سوشل میڈیا پر پوسٹیں اپ لوڈ ہونے لگیں کہ مسیحی خاتون کو اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں قتل کر دیا گیا ہے۔ اسے اینگلنگ کہتے ہیں۔ اب تک میرے سامنے آنے والا اصل معاملہ ملاحظہ کریں۔ یہ واقعہ آج کا نہیں ہے۔ 6 جون کو عسکری 11 کے پاس پولیس سٹیشن ہیئر کو ایک نامعلوم خاتون کی لاش ملتی ہے۔ پولیس ابتدائی کارروائی کے بعد اس لاش کو مردہ خانہ جمع کرا دیتی ہے۔ اگلے روز خاتون کے اہل خانہ مردہ خانہ میں لاش شناخت کر لیتے ہیں۔ اسی روز یعنی 7 جون کو مقتولہ کے ورثا کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔ میں نے یہ ایف آئی آر پڑھی ہے۔ ورثا نامعلوم قاتل کے خلاف مقدمہ درج کراتے ہیں۔ پولیس تفتیش شروع کرتی ہے۔ دوران تفتیش ایک 25 سال کا لڑکا گرفتار کیا جاتا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ مقتولہ یعنی ان خاتون کے شوہر ٹریفک حادثہ میں فوت ہو گئے تھے۔ اس حادثہ کے بعد خاتون کے ایک لڑکے عمران عرف مانی سے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ یہ ناجائز تعلق ہے۔ پاکستان میں کئی لوگوں کے ناجائز تعلقات ہیں لہٰذا یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اصل کہانی یہ ہے کہ اختلافات، لڑائی جھگڑا بھی تعلقات میں ہی بنتا ہے۔ یہاں کوئی وجہ بنی اور مقتولہ کے عاشق یا دوست نے اسے قتل کر دیا۔ ملزم اپنے جرم کا اعتراف کر چکا ہے۔ ملزم گرفتار بھی ہو چکا ہے۔ یقینا اسے سزا بھی مل جائے گی۔ گرفتار ملزم کے اعترافی بیان کے مطابق مقتولہ نے ملزم کو بلیک میل کیا تھا اور یہی بلیک میلنگ قتل کی وجہ بنی۔ لگ بھگ ایک ماہ بعد اچانک اس قتل کو پلاننگ کے ساتھ مذہبی رنگ دے کر مسلم مسیحی ایشو بنانا ایک پوری گیم ہے۔ کچھ مسیحی این جی اوز، سوشل میڈیا پیجز بھی ایکٹو ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کا ایک پراپیگنڈا لانچ کیا جا رہا ہے ورنہ حال ہی میں ہندو لڑکی سی ایس ایس کر کے اے سی لگی ہے۔ پنجاب کے ایک پولیس سٹیشن کے مسیحی ایس ایچ او سے میں دو ہفتے قبل ملا تھا۔ یہ پاکستان ہے جہاں اقلیتوں پر مذہب کا دباؤ نہیں ہے۔ یہ ہندوستان نہیں ہے جہاں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ایک قتل کو قتل ہی بتائیں۔ گرفتار ملزم کی سزا کا مطالبہ بھی کریں لیکن اس آڑ میں حقائق مسخ نہ کریں۔ چند پیسوں یا ریٹنگ کے لالچ میں ملک و قوم کا سودا نہ کریں۔ (سید بدر سعید)“
سوشل میڈیا پر آئے دن ایسے کئی ٹرینڈز چلتے رہتے ہیں جن کے پیچھے تنخواہیں اور دیگر فوائد حاصل کرنے والے ناسور لوگوں کو کبھی فرقوں کی بنیاد پر تو کبھی کسی اور تعصب کی بنیاد پر آپس میں لڑانے کی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی خبر یا بیانیے کے بارے میں تحقیق کیے بغیر اسے درست مان کر لڑنے مارنے پر تُل پڑتے ہیں۔
میں جب بدر سعید کی یہ پوسٹ پڑھ رہا تھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ اگر پاکستان کے چند لوگ ہی منفی پراپیگنڈا کو کاؤنٹر کرنے کا عہد کر لیں تو نہ صرف یہ کہ عام لوگوں کو کافی حد تک گمراہی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ شر پسند عناصر کی حوصلہ شکنی بھی کی جا سکتی ہے۔ کہنے کو تو بدر سعید پنجاب پولیس کا ترجمان ہے لیکن وہ پورے ملک اور ملک کے عوام کی ترجمانی کرتا ہے۔ ویلڈن سید بدر سعید۔