امریکہ نے کابل کے قریب انتہائی سٹرٹیجک اہمیت رکھنے والا اور ملک افغاناں میں قابض امریکی فوج کی بالادست قوت کی علامت بگرام کا فوجی ہوائی اڈہ خالی کر کے اسے افغان فوج کے حوالے کر دیا ہے…… دوسری جانب جمعرات یکم جولائی کو پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے پارٹی لیڈروں کا اجتماع منعقد ہوا ہے جس کے اندر آرمی چیف کی موجودگی کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی نے بظاہر افغان جنگ کے خاتمے کے موقع پر پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مفصل جائزہ پیش کیا اور پیش آمدہ صورت حال پر ملکی سلامتی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دیئے…… بیس سالہ لاحاصل امریکی جنگ جس نے افغانستان کو پرلے درجے کی تباہی بلکہ بربادی سے ہمکنار کیا…… خود واحد سپر پاور کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی ہوائی اور برّی فوجی قوت بھی افغان مزاحمت کاروں کے آگے بے بس ثابت ہوئی…… یوں ایک عہد اپنے انجام کو پہنچنا شروع ہو گیا ہے…… اس سے آگے کیا ہو گا…… کیا افغانستان غیرمعمولی طور پر داخلی انتشار اور نہ قابو میں آنے والی خانہ جنگی کا میدان بن جائے گا…… امریکہ کی اس کے بارے میں اگلی پالیسی کیا ہو گی…… کیا دنیا کا یہ سب سے طاقتور ملک اپنی تمام تر جابرانہ قوت کے استعمال سے دستکش ہو کر سات ہزار میل واپس اپنے گھر چلا جائے گا…… ایسا ہوتا ہرگز نظر نہیں آ رہا…… کیونکہ امریکی سپرطاقت کے دفاعی سٹرٹیجک اور اقتصادی مفادات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں اور افغانستان و پاکستان کا خطہ تو خاص طور پر گزشتہ صدی کے نصف آخر سے لے کر آج تک اس کی چراگاہ بنا ہوا ہے…… بیسویں صدی کے نصف آخر میں اس خطے کے اندر اپنے جنگی محاذ قائم کر کے حریف سپر طاقت سابق سوویت یونین کو شکست دی…… پھر اسامہ بن لادن اور تحریک طالبان کے ساتھ نبردآزما ہوا…… اسامہ بن لادن کو اس نے ایبٹ آباد میں ہمارے فوجی مستقر کے قریب ایک مکان سے اچانک پکڑ کر اس کی ذات کا خاتمہ کر دیا…… لیکن طالبان ایک زندہ و تابندہ اور عہد حاضر کی سب سے بڑی اور مؤثر مزاحمتی تحریک کے طور پر پورے جوبن کے ساتھ متحرک اور اپنا وجود منوا رہے ہیں …… امریکہ کا ہمارے خطے سے وابستہ اگلا مفاد عوامی جمہوری چین کا مقابلہ کرنا ہے…… اس کے لیے تیاریاں دونوں اطراف کی جانب سے جاری ہیں چین میں وہاں کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کی ایک سو سالہ سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے اس کے صدر جناب شی جن نے واشگاف الفاظ میں خبردار کیا ہے جو بھی ہمارے ساتھ ٹکرانے کی کوشش کرے گا منہ کی کھائے گا…… اس تناظر کو سامنے رکھیے اور اندازہ لگایئے آنے والے دور میں ہمارا خطہ بڑی طاقتوں کے درمیان شروع ہونے والی نئی آمیزش کی کتنی بڑی آماجگاہ بننے والا ہے…… اس میں پاکستان کا کردار کیا ہو گا…… سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کھل کر امریکہ کا اتحادی ہونے کا کردار ادا کیا تھا…… لیکن اب صورت حال قطعی مختلف ہے…… پاکستان چین کا بھی گہرا اور قریبی دوست ہے اور امریکہ کے ساتھ بھی اچھے یا برے تعلقات کی ایک تاریخ رکھتا ہے…… نیا جنگی محاذ جو آگے چل کر کھلنے والا ہے ہم دونوں میں سے کس کا کھل کر ساتھ دیں گے اور کس کا نہیں …… کیونکہ چین نے ہر مشکل وقت میں ہمارا کھل کر ساتھ دیا ہے اس وقت بھی سی پیک کا عظیم تعمیراتی منصوبہ اس کے تعاون سے ہماری سرزمین پر زیرتعمیر ہے…… امریکہ اس پر ناک بھوں چڑھاتا ہے…… جبکہ امریکہ کی جانب سے ملنے والی فوجی اور مالیاتی امداد کے ہم روزِ اوّل سے محتاج رہے ہیں …… اب بھی ہماری لڑکھڑاتی معیشت اس کی جانب امداد طلب نگاہوں سے دیکھ رہی ہے…… تو ہم کس کا ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے…… اگر غیرجانبداری اختیار کریں گے تو وہ کس نوعیت کی ہو گی…… یہ ہے وہ اہم اور نازک ترین سوال جو ہمارے حکمرانوں کو لمحہ موجود کے اندر درپیش ہے…… واضح جواب مگر مل نہیں رہا……
تاہم افغانستان کی تازہ ترین اور غیرمعمولی صورت حال کے پیش نظر فوری اہمیت کا حامل جو مسئلہ ریاست پاکستان کا فیصلہ کن قوتوں (سول اور عسکری قیادت) اور ہمارے عوام کو درپیش ہے ملک افغاناں میں اگلی حکومت کس کی بننے جا رہی ہے…… اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی انتظامیہ امریکی حفاظتی چھتری کے بغیر ریت کا گھروندا ثابت ہو گی…… بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے طالبان کی یلغار کی
صورت میں اسے کاغذ کے پرزوں کی طرح اڑتے دیر نہیں لگے گی…… لیکن کیا طالبان پوری ارض افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں …… وہ ملک کی اکثریتی پشتون آبادی سے تعلق رکھتے ہیں جو کل کے نصف سے ذرا کم ہے…… بقیہ افغان آبادیاں تاجک، ازبک شیعہ آبادی اور دیگر نسلوں کی نمائندگی کرنے والے لوگ ہیں …… 1996 میں جب طالبان پہلی مرتبہ پورے افغانستان پر قابض ہوئے تھے تو ان آبادیوں نے شمالی اتحاد (تاجک) عبدالرشید دوستم کے پیروکاروں (ازبک) اور دیگر چھوٹی بڑی آبادیوں کے ساتھ مل کر ڈٹ کر طالبان کی مخالفت کی تھی…… نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے تعاون کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تو ان اقلیتی آبادیوں نے کھل کر امریکیوں کا ساتھ دیا تھا…… طالبان حکومت کو ختم ہونے میں دیر نہ لگی……پھر طالبان کی تحریک مزاحمت شروع ہوئی جنہوں نے بیس سالوں کے دوران امریکیوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے…… لیکن آج جو امریکی افغانستان کو خالی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں تو کیا اپنی تمام تر جنگی صلاحیت اور داخلی قوت کے ساتھ طالبان اس خلا کو پورا کرنے کی صلاحیت و قدرت رکھتے ہیں …… بہتر تھا پاکستان اور افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک مثلاً چین، ایران اور ترکی مل کر طالبان اور تاجک و ازبک آبادیوں کے درمیان قابل عمل سمجھوتہ کرا دیتے ایسا مگر نہیں ہوا…… لہٰذا سخت خدشہ پایا جاتا ہے کہ طالبان کے قابض آتے ہی امریکہ طالبان مخالف نسلی فریقوں کو ان کے خلاف بھڑکائے گا یوں نئی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی…… اس کے سب سے زیادہ اثرات پاکستان پر جس کی ملک افغاناں کے ساتھ 2200 میل لمبی سرحد لگتی ہے پڑیں گے…… یہ اور دوسرے وہ مسائل جن سے افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو سابقہ پیش آ سکتا ہے بلاشبہ سنگین نوعیت کے نہیں …… ان پر غوروخوض کے لیے جمعرات یکم جولائی کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر حکومت اور اپوزیشن کی نمائندہ جماعتوں کے چنیدہ افراد کا ”ان کیمرا“ اجلاس منعقد ہوا…… آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی اس میں شریک ہوئے اور پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو صورت احوال واقعی پر تفصیلی بریفنگ دی…… سوال جواب کی نشست ہوئی…… جو خبریں چھن چھن کر باہر آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے چار بنیادی مسائل پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے…… (1) ہم اس جنگ میں کسی فریق کے ساتھی نہیں۔ (2) اگر خانہ جنگی ہوئی تو مہاجرین کا زبردست ریلا پاکستان کی سرحد میں داخل ہو جائے گا۔ (3) خانہ جنگی کی صورت میں پاکستانی طالبان لامحالہ اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیں گے۔ اس طرح خانہ جنگی کے شعلے پاکستان کے سرحدی مقامات پر بھی بھڑک سکتے ہیں۔ (4) ماضی کے برعکس اس مرتبہ امریکہ کو زمینی یا ہوائی اڈے نہیں دیئے جائیں گے…… ردعمل کے طور پر امریکہ ہمارا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کرے گا……
یہ اتفاق رائے بلاشبہ احسن ہے اور ہماری جملہ قومی قیادت کے اندر مثبت فکر اور باوقار طرز عمل اختیار کرنے کے جذبے کی جانب نشاندہی کرتا ہے…… لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اسے عملی شکل دینے کے لیے قومی سطح پر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا…… کہا گیا ہے اس مسئلہ میں ایک اور بریفنگ کا اہتمام کیا جائے گا…… درست مگر اصل مسئلہ یہ ہے آپ مشترکہ طور پر جو بھی لائحہ عمل اختیار کریں اسے باقاعدہ اور قابل عمل پالیسی کی شکل کب اور کون دے گا…… ظاہر ہے یہ کام جنرل قمر جاوید باجوہ یا جنرل فیض حمید یا کسی بھی دوسرے جرنیل کا نہیں …… چند پارلیمنٹیرین کی بھی اکیلے ذمہ داری نہیں اس کے لیے لازم ہے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جیسا کہ حزب مخالف کے کچھ لیڈروں نے بھی مطالبہ کیا ہے بلایا جائے…… اس کے اندر اراکین پارلیمنٹ درپیش صورت حال اور اس کے اندر مضمر خطرات اور ان کے ایک ایک پہلو کا بھرپور اور خالص قومی و معروضی نقطہ نظر سے جائزہ لیں …… اس کے بعد تمام پارلیمانی جماعتوں کے سرکردہ نمائندگان پالیسی ڈرافت تیار کریں جس کی آخری منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے صرف اس صورت میں قومی نقطہ نظر کی عکاسی کرنے والا اور قابل نفاذ پالیسی ڈرافٹ تیار ہو گا…… وزیراعظم عمران خان سمیت تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کی In Put اس میں بھرپور طریقے سے شامل ہو اور یہ پالیسی اعلان ایک یا دو ملک کی تمام کی تمام منتخب اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد پارلیمنٹ کی سوچ اس کی پوری طرح عکاسی کرتی ہو…… اس پالیسی بیان یا متفقہ لائحہ عمل کو لے کر وزیراعظم پوری قوم کے اعتماد کے ساتھ اپنی افغان پالیسی کو دنیا کے سامنے رکھیں پھر اس پر پوری اخلاقی و عملی قوت کے ساتھ عمل پیرا ہونے میں دیر نہ لگائیں …… لیکن یہاں بدقسمتی سے صورت حال یہ ہے جمعرات یکم جولائی کو پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندگان کا بریفنگ حاصل کرنے کے لیے مشترکہ اجلاس ہوا تو وزیراعظم ندارد…… پوچھا گیا وہ کیا ہوئے…… ان کی جماعت کی جانب سے ترت جواب ملا چونکہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ان کی موجودگی کی صورت اپنے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اس لیے وزیراعظم نے عافیت اسی میں سمجھی کہ خود پیش نہ ہوں …… مسلم لیگ (ن) نے اسے سفید جھوٹ قرار دیا اور کہا ہے اسی طرح کی پچھلی میٹنگوں میں بھی جو ہمارے نرالے وزیراعظم نے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی کیا وہ بھی ہمارے بائیکاٹ کی دھمکی کا شاخسانہ تھی…… اگر تب ایسا نہیں ہوا تھا تو اس مرتبہ ہم پر جھوٹا لگانے کا کیا تک ہے…… اس بحث سے قطع نظر حقیقت یہ ہے خان بہادر وزیراعظم کو اپنا متکبرانہ رویہ ترک کرنا چاہئے وہ اپوزیشن پر جو الزامات لگاتے رہے ہیں آج تک ان میں ایک بھی ثابت نہیں ہوا…… اب جو اگر ہم افغانستان پر ماضی کے برعکس قومی خودمختاری کی عکاس پالیسی اختیار کرنے جا رہے ہیں تو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے جن سے پوری طرح نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہئے…… ظاہر ہے یہ کام اکیلے وزیراعظم بہادر نہیں کر سکیں گے…… انہیں پوری قوم اور اس کے منتخب نمائندوں کو پورے اعتماد کے ساتھ لے کر آگے چلنا ہو گا…… اس کے لیے لازم ہے وہ اپنے رویے میں مثبت تبدیلی پیدا کریں …… قومی لیڈر ہونے کا ثبوت دیں …… سب کو اپنے ساتھ ملا کرقدم اٹھائیں اسی میں قومی سطح پر درپیش نازک صورت حال کا سامنا کرنے کی مؤثر راہ ہموار کی جا سکتی ہے……