جب گدھے کی کھال چین کو اور گوشت خاموشی سے ہمارے قصابوں کو پیارا ہوا، اس وقت سے گدھے ہماری خبروں کی زینت بننے لگے۔ کورونا ذرا دھیما پڑا تو اب پھر گدھوں کی گنتی شروع ہوگئی۔ پتہ یہ چلا کہ پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اب ہم 56 لاکھ گدھوں کے مالک ہیں۔ اگرچہ ہمارے اندازے اور توقع سے یہ تعداد کافی کم ہے! گدھا ہمارے ہاں (نجانے کیوں) بے وقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شاید قیافہ شناسوں نے بے چارے گدھے پر یہ تہمت دھری ہو۔ سادہ سی صورت، لمبے کان اور پھر اچانک ہی منہ اٹھاکر پھٹی آواز میں سمع خراش ڈھینچوں ڈھینچوں شروع کردینا۔ جو پھر آہستہ آہستہ دم توڑ جاتی ہے اور گدھا اپنا سا منہ لیے چل دیتا ہے۔ یہ پکار اس کی تو تنبیہی ہوا کرتی ہے کیونکہ حدیث کی تصریح کے مطابق گدھے کو شیطان نظر آتا ہے، تو وہ ڈھینچتا ہے۔ نصیب اپنا اپنا۔ مرغے کو فرشتہ نظر آتا ہے تو وہ اذان دیتا ہے اور ہمیں موقع دیتا ہے اللہ سے اس کا فضل مانگنے کا۔ (اس وقت کی دعا: اللھم انی اسئلک من فضلک) یاد رہے کہ حضرت لقمان نے اپنی نصیحتوں میں بیٹے سے یہ بھی کہا تھا: ’اور اپنی آواز پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے۔‘ اللہ نے اسے سورۃ لقمان، آیت 19 میں درج فرمایا۔
اب گدھے کی یہ رپورٹ شائع ہونے کی دیر تھی کہ بہت سے کالم نویسوں کو گدھے کی آڑ میں طبع آزمائی کا موقع مل گیا۔ گدھوں کی شان میں گستاخیاں ہونے لگیں تو ’ماہر قمریات‘ یا چاند نکالنے والے (موقع بے موقع) وزیر، فواد چودھری کو ناگوار گزرا۔ کیوں نہ گزرتا، ان کے محب ومحسن آقائے نامدار امریکا کے ڈیمو کریٹوں کا انتخابی، یا کہیے قومی نشان گدھا ہے۔ ادھر، خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا…… اقبال نے کہا تھا۔ لگتا ہے خنجر گدھے کے لیے چونکہ خطرے کی علامت ہے اسی لیے فواد چودھری اور ان کی پارٹی جو ذیلی، ضمنی، ظلی، بروزی نسبت تو (انگریزی اور انگریزیت کی بنا پر) ڈیموکریٹ سے رکھتی ہے، کو چبھا۔ انہوں نے گدھے کی غیبتوں کی ناکہ بندی کرتے ہوئے اسے عقلمند جانور قرار دیا۔
ہم نے حکم حاکم جان کر گدھے بارے آگاہی حاصل کرنے کی ٹھانی۔ پتہ چلا کہ بے چارہ بہت ہی غلط فہمیوں میں گھرا کھڑا ہے۔ چونکہ گھوڑے کا غریب رشتہ دار ہے، اس لیے مسکین ذرا کمتر جانا جاتا ہے۔ گھوڑا مقابلتاً خوبصورت، قوی اور ذہین دکھائی دیتا ہے۔ یہ بے وقوف، ناسمجھ اور سست گردانا گیا۔ اصلاً اس کی ایک عادت ہے جو لوگ اسے ضدی جان کر اس پر چابک، لاٹھی برسا دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جب اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو یہ جم کر بس وہیں کھڑا ہوجاتا ہے اور جب تک اسے محفوظ تر اقدام سمجھ میں نہ آئے وہاں سے ہلتا نہیں ہے۔ اس پر اسے ضدی، ہٹ دھرم اور ڈھیٹ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ آخر گدھے کو درپیش، لاحق خطرہ گدھا ہی جان سکتا ہے ہمیں اسے رعایت دینی چاہیے۔ ایسے میں سامنے سے ٹرک بھی آ رہا ہو تو گدھا سڑک کے درمیان اسی طرح منجمد کھڑا رہے گا! گدھا لاجک (منطق) میں یقینا کوئی بڑی بات ہوگی، ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سو ایسے میں اس کی منطق کا احترام کرتے ہوئے خود گدھے پر سے اترکر ایک طرف ہوجانا چاہیے لیکن ہم تو اتنے گدھا (اور ہاتھی یعنی ری پبلکن) پرست ہیں کہ طالبان کے سامنے اوباما کا گدھا جم کر کھڑا رہا اور ہم اتر کر ایک طرف نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کا ہاتھی آگیا یعنی ری پبلکن ٹرمپ اور وہ سڑک پار کرکے مذاکرات کی میز پر جا بیٹھا، تو کہیں ہم بھی پا سے لگے!
ایک بات ہم نے نہایت معتبر حوالے سے پڑھی تھی۔ وہ یہ کہ امام شافعیؒ کا فرمان کہ ’جسے غصہ نہیں آتا وہ گدھا ہے۔‘ ساتھ ہی یہ تصریح تھی کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ مومن کو غصہ نہیں آتا بلکہ فرمایا کہ ’وہ غصے کو پی جاتے ہیں۔‘ یہ شاید اس لیے کہ گدھا کان لٹکائے کھڑا مار کھاتا رہتا ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اصلاً غصہ فی نفسہٖ ایک قوت ہے۔ جو دانا اور عقل مند کے پاس ہو تو غیرت نفسی اور غیرت دینی میں ڈھل کر ایک طرف ’حیا‘ اور دوسری طرف عمر فاروقؓ بن کر قوم کا دفاع کرتی ہے۔ مرد غیور نہ ہوتو ’دیوث‘ ہوجاتا ہے۔ اسے پروا نہیں ہوتی کہ اس کی محرم خواتین کیسا لباس زیب تن کرکے باہر نکلتی ہیں اور غیرمرد کس طرح ان سے ملتے جلتے ہیں۔ ’دیوث‘ شرعی گالی بھی ہے اور ایسا فرد جنت سے محروم ہونے، اس کی خوشبو تک نہ پانے کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ اب ہمارے ہاں دینی حوالے سے واضح دوٹوک گفتگو سے شرم آتی اور کرنے پر عار دلایا جاتا ہے، اسی لیے ملک گیر سطح پر گدھوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
چلیے جنگل کی دنیا سے ایک لطیف بات ہوجائے۔ ہم یوں بھی جسے گلوبل ولیج کہتے ہیں، وہ گاؤں (ولیج) کم اور جنگل زیادہ ہے۔ مغرب اس کا چودھری ہے اور اس کا اور جنگل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شہ سرخیوں میں ہالی وڈ، بالی وڈ کے جنگلوں کے تذکرے۔
تو جنگل کی کہانی یہ ہے کہ چیتے اور گدھے میں بحث ہوگئی۔ گدھے کا اصرار تھا کہ آسمان کالا ہے اور چیتا کہہ رہا تھا آسمان نیلا ہے۔ جب تادیر بحث مباحثے اور جنگل کے عوام (چھوٹے جانور) مل جل کر فیصلہ نہ کر پائے تو مقدمہ بادشاہ کے پاس گیا۔ شیر نے دونوں کے دعوے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا کہ آسمان کالا ہے۔ چیتے کو گرفتاری کی سزا دی۔ جب باقی سب ادھر ادھر ہوگئے تو چیتے نے دکھ سے پوچھا کہ بادشاہ سلامت آپ جانتے ہیں آسمان نیلا ہے تو پھر آپ نے مجھی کو سزا وار ٹھہرایا؟ شیر غرایا اور ناراض ہوکر کہنے لگا کہ تم نے اس احمق گدھے سے بحث کیوں کی، رعایا میں انتشار کیوں پھیلایا؟ دیکھا آپ نے؟ اب اگر ملک میں چیتے محبوس ہوں اور آسمان کالا قرار پا چکا ہو تو وجہ جان لیجیے۔ آیندہ بحث مباحثے سے گریز رہے، تاکہ آپ کے گھر کے اوپر والا نیلگوں آسمان کہیں چھن نہ جائے!
اللہ گدھے پر لدی کتابوں والی مثال دے چکا۔ ’جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ (الجمعہ۔ 5) گدھا تو بے چارہ مجبور ومعذور ہے۔ کتابیں لد جانے سے ڈاکٹر گدھا تو نہ بن جائے گا اور یہ اہل کتاب قصداً منحرف ہیں! سو گدھا ان سے بہتر ہے! کھوتے تیتوں اتے……
ترکی سے اردوان کے زمانے میں تعلق بڑھا تو ترک طنز ومزاح اور حکمت کے کردار ملانصر الدین کی کہانیاں، حکایتیں بھی چلیں۔ ملانصرالدین کا گدھا بھی ایک استعارہ ہے، اپنی دولتی آمیز جولانیوں کے ساتھ۔ اس میں ہمارے حالات کی جھلکیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
ملانصرالدین ایک دن محبوب گدھے کو چھت پر لے گیا جیسے تیسے۔ گدھا خوفزدہ تھا اپنی جان کے لیے، چھت پر جانے سے۔ یہ مُلا کی ہمت تھی کہ چڑھا کھڑا کیا چھت پر۔ پھر چڑھے کو آخر اترنا بھی تو تھا۔ ملا سیدھے راستے سیڑھیوں سے اتارنا چاہتا تھا مگر گدھا تھا کہ اڑیل، ضدی! میں نہ مانوں۔ گدھے سے سارے مذاکرات اکارت گئے۔ گدھا چھت پر سارا زور صرف کرنے لگا کہ چھت میں سوراخ کرے اور ڈائریکٹ فلائٹ نیچے اتر جائے۔ نصرالدین کی روک ٹوک کسی کام نہ آئی اور بالآخر گدھے کے ساتھ نصرالدین بھی گدھے کے یارانے میں چھت سے اڑ اڑا دھڑام نیچے جا پڑے۔ چھت بھی ٹوٹی اور گدھے کو چھت پر چڑھنے کا حوصلہ دلادلاکر سیڑھیاں چڑھانا مہنگا پڑا۔ افغانستان کے پہاڑوں پر ہمارے حوصلہ دلانے، مدد دینے سے امریکا جا چڑھا تھا۔ ہم تو ڈوبے صنم کے مصداق اپنے ساتھ ہماری معیشت میں سوراخ ڈالے، لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع، افغانوں کے ساتھ ہمارے اخوت محبت اور بہادر بھائیوں کے کٹ مرنے والے جذبے سبھی مجروح ہوئے اور آج امریکا کی سپرپاوری افغانستان میں زمین بوس ہوئی تو ہم بھی اب مٹی جھاڑ اور پسینہ پونچھ رہے ہیں۔
ملا جی کے گدھے کا یہ واقعہ بھی دیکھیے۔ ایک دن ان کا پڑوسی جو نصرالدین کو ناپسند تھا، چلا آیا ان سے گدھا ادھار مانگنے۔ اب نصراللہ اس سوال وجواب میں رشک شاہ محمود قریشی دکھائے دیتے ہیں۔ ساری سفارتی زبان وبیان کی مہارتیں سمیٹے کہنے لگے: کیوں نہیں! کیوں نہیں! میں اپنا گدھا آپ کو ضرور دیتا، مگر افسوس کہ کل ہی دوسرے شہر سے میرا بھائی آیا اور گدھا لے گیا۔ اسے گندم پسوانے جانا تھا۔ گدھے پر انکار سن کر پڑوسی بے نیل مرام لوٹ چلا۔ چند قدم ہی گیا ہوگا کہ نصرالدین کا گدھا جو پچھلے صحن میں بندھا کھڑا تھا ڈھینچوں ڈھینچوں کا راگ الاپنے لگا۔ پڑوسی ٹھٹھکا، لوٹا اور کہنے لگا: تم تو کہہ رہے تھے تمہارا گدھا یہاں نہیں ہے؟ نصرالدین بھڑک اٹھا، میرے دوست! اب تم کس کے کہے کا یقین کروگے؟ میرا، کہ ’گدھا یہاں نہیں ہے‘ یا گدھے کا؟ ظاہر ہے نصرالدین، گدھے سے زیادہ معتبر ہے، لہٰذا، اگر امریکی اخبار آپ کو خبر دیں کہ ہم نے اڈے امریکا کو دیے ہیں تو ان کا اعتبار نہ کیجیے۔ وزیر خارجہ/ وزیراعظم ہی درست فرما رہے ہیں۔ یہی اس حکایت کا حاصل ہے۔