بیجنگ :چین بھارتی فوجی دستوں کے تنازع میں ہر صورت میں اپنی سرحدی خود مختاری کا تحفظ کرے گا خواہ اس کے لئے جنگ بھی لڑنا پڑے ، چین کے معروف اخبارڈیلی گلوبل ٹائمز نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ ہندوستان کی وزارت دفاع چین بھارت بارڈر کے قریب ہر موسم کیلئے قابل عمل ریلوے راہداری نیٹ ورک تعمیر کرنے کے لئے سروے کررہی ہے۔
بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے نے بتایا ہے کہ سینئر ریلوے بورڈ حکام کے مطابق اس راہداری کے پیچھے یہ نظریہ کار فرما ہے ایسا وسیع رابطے کا ذریعہ قائم کر لیا جائے تا کہ روسی سرحد تک فوجی دستوں اور اسلحہ کی نقل و حرکت آسان ہو سکے ۔ شنگھائی انسٹی ٹیوٹ برائے انٹرنیشنل سٹیڈیز کے ڈائریکٹر زاﺅ گان چینگ نے گلوبل ٹائمز کو بتایا ہے کہ چار راستوں میں سے تین جنوبی تبتی علاقے تک تعمیر کئے جائیں گے ۔
جبکہ چوتھا چینی سرحد کے گر د جموں و کشمیر کے علاقے لداخ تک بنایا جا ئے گا، ہندوستان ان راستوں کی تعمیر کے ذریعے سرحد ی دفاع کو مضبوط بنا کر چین کو گھیرنا چاہتا ہے ،ہندوستان کے اس منصوبے کا پس منظر دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ سرحدی تنازع بھی ہے۔
چین کی وزارت قومی دفاع کا کہنا ہے کہ بھارتی دستو ں کی جون میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کا مقصد چینی علاقے میں ڈانگ لانگ ایریا میں چین کی طرف سے ایک سڑک کی تعمیر کو روکنا تھا ۔چینی وزارت خارجہ کی ترجمان لوکانگ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ چین کی علاقائی خود مختاری کا احترام کرے اور اس کے فوجی دستے جو سکم سیکشن میں سرحد عبور کر کے چینی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں انہیں فوری طورپر واپس بلائے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈانگ لانگ کا علاقہ چین کا ہے جسے قانون اور تاریخ نے ثابت کر دیا ہے ، چین ڈانگ لانگ میں قانونی طورپر سڑک تعمیر کررہا ہے،کسی اور فریق کو اس میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
چین کی وزارت قومی دفاع کے انفارمیشن آفس کے ڈپٹی ڈائریکٹر سینئر کرنل وو کیان نے کہا ہے کہ بھارتی فوج کے ہر شخص کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اور اس قسم کے خطرناک اقدامات بند کردینے چاہئیں جب ان کی توجہ 8جون کے بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونیوالی خبروں کی طرف دلائی گئی جس میں بھارتی آرمی چیف بی پن راوت نے کہا تھا کہ بھارت ڈھائی محاذوں پر چین پاکستان اور اپنی اندرونی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہے۔
بھارتی اخبار ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق وو کیان کے ریمارکس پر بھارتی وزیر دفاع اروم جیتلے نے واضح کیا کہ 2017ءکا بھارت 1962ءسے بالکل مختلف ہے ۔یاد رہے کہ 1962ءمیں چین اور بھارت کے درمیان چینی علاقے میں تنازع پر مختصر جنگ ہوئی تھی جس میں 722چینی فوجی اور 4383بھارت فوجی ہلاک ہو گئے تھے ،بھارتی وزیر دفاع کے جواب میں شنگھائی میونسپل سینٹر برائے انٹرنیشنل سٹیڈیز کے پروفیسر وانگ ڈی ہوا نے کہا کہ چین بھی 1962ءسے بالکل مختلف ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان 1962ءسے چین کے ساتھ بڑے کمپیوٹر کے معاملات کررہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کئی معاملات میں مماثلتہے ،دونوں بڑی آبادی والے ترقی پذیر ملک ہیں ۔ مبصرین نے کہا کہ اگر چین اور بھارت کے درمیان اس تنازع کو مناسب طورپر حل نہ کیا گیا تو جنگ کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے ۔
اس بات سے قطع نظر چین ہر صورت میں اپنی خود مختاری ، علاقائی سالمیت اور سرحد کا تحفظ کرے گا تا ہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو امریکہ بد قسمتی سے براہ راست بھی ملوث ہو سکتا ہے خواہ وہ بھارت کو ہتھیاروں کی فروخت کا معاملہ ہی ہو ۔
ماہرین نے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے تنازعات مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے طے کریں اور فریقین کو تصادم یا جنگ کی بجائے ترقی پر نظر رکھنی چاہئے ،دونوں ملکوں کے درمیان تصادم دیگر ممالک کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کر سکتا ہے ،مثال کے طورپر امریکہ کو بھارت کو چین کی طرف اپنا جارحانہ رویہ تبدیل کرنا چاہئے کیونکہ اچھے تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں ۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.