کرناٹک، نئی دہلی:بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع اوڈپی میں ایک سرکاری کالج نے طالبات کو حجاب پہن کر کلاس میں داخل ہونے سے روک دیا ہے جس کے خلاف ایک اسلامی تنظیم کے ارکان اور کالج کی طالبات احتجاج کررہی ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کالج کی ایک طالبہ نے بتایا جو طالبات حجاب پہنے ہوئے تھیں انکو کلاس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ سائوتھ ایشین وائر کے مطابق اسلامی تنظیم کے کچھ ارکان کے ساتھ کالج کی طالبات کے ایک وفد نے اس واقعے کے بارے میں ضلع کلکٹر سے رابطہ کیا۔ جن پانچ لڑکیوں کو کلاس میں حجاب پہن کر آنے سے روک دیا گیا تھا وہ بھی وفد میں شامل تھیں۔
کلکٹر نے کہا انہوں نے اس معاملے پر کالج کے پرنسپل سے بات کی ہے، ایک طالبہ نے کہا ہمیں اپنے والدین کو کالج لانے کیلئے کہا گیا تھا لیکن جب وہ پہنچے تو انہیں چار گھنٹے تک انتظار کرایا گیا۔ ایک طالبہ نے کہا حجاب پہننے سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اب ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
مسلم طالبات نے کہا پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، انہیں اردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ۔ طالبات تین دن سے احتجاج کے طور پر کلاس کے باہرکھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا انکے والدین نے پرنسپل رودر گوڑا سے رابطہ بھی کیا لیکن انہوں نے اس موضوع پر بات چیت کرنے سے صاف انکار کیا۔
دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں سے نفرت اور انتہاپسندی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، اسکی تازہ ترین مثال آن لائن بھارتی ایپ ’’ بلی بائی‘‘ پر نیلامی کیلئے پیش کی گئی 100 مسلم خواتین ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی تصویروں میں مسلمان اداکارہ شبانہ اعظمی، کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی ، دہلی ہائیکورٹ کے جج کی اہلیہ سمیت کئی مسلم سیاستدان اور سماجی کارکن خواتین شامل ہیں، کشمیری صحافی قرۃ العین رہبرکا نام بھی موجود ہے، قرۃ العین نے گزشتہ برس سلی ڈیلز میں اس عمل کے خلاف آواز اٹھائی تھی تاہم اب خاتون صحافی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
خیال رہے یہ دوسرا موقع ہے جب مسلمان خواتین کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے انہیں نیلامی کیلئے پیش کیا گیا ، گزشتہ برس بھی سلی ڈیلز نامی بھارتی ایپ پر 80 سے زائد مسلمان خواتین کو فروخت کیلئے پیش کرکے انکی توہین کی گئی تھی۔