شاعر شہیر اسد اللہ خان غالب نے اپنی پنشن میں اضافے کی خاطر ۱۸۲۷ء میں کلکتے جاتے ہوئے رستہ میں ایک غزل کہی تھی جس میں اپنے اس سفر کی غایت بیان کرتے ہوئے لکھا تھا ، ’’جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو ‘‘۔ پھر یہ بھی لکھا تھا کہ ہوس سیر و تماشا؟ سو وہ کم ہے ہم کو ۔ ہمارا مسئلہ پنشن و نشن کا نہیں تھا۔ ہاں لاہور میں بیٹھے بیٹھے پھپھوندی سی لگنے کا احساس بڑھ گیا تھا اور ’’ہوسِ سیر و تماشا‘‘ نے اچانک سر اٹھا لیا تھا سو سوچا کہ مانندِ نظر گھر کو چھوڑنا چاہیے اور کچھ قریوں قصبوں کی بارِ دیگر سیر کرنی چاہیے ۔ اور ہمارے عزیز نواسے عبداللہ کا بھی ایک مدت سے اصرار تھا کہ مجھے اپنا آبائی قصبہ بصیرپور اور اپنا ننہالی شہر پتوکی دکھائیں۔ اس پر مستزاد ہمارے یار عزیز اور سابقہ کلاس فیلو اعجاز حسین ڈولہ کی بار بار کی یاد دہانی کہ میرے گاؤں ڈولہ پختہ میں ایک آدھ بار تو تمہیں آنا ہی ہو گا۔ سو مجھ ایسا روایتی گل محمددامن جھاڑ کر آمادۂ سفر ہو ہی گیا اور حق یہ ہے کہ یہ سفر میرے لیے بڑا ہی مبارک ثابت ہوا۔
اول اول تو یہی ارادہ تھا کہ دو تین جگہوں کا چکر کاٹ کر اور احباب سے مل ملا کر لاہور آ جائیں گے مگر جس طرح بعض اوقات بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اس طرح اس سفر نے طول کھینچا ، سفر در سفر کی صورت پیدا ہوئی، رستوں نے رستوں کو آواز دی اور ہم اکٹھے دس گیارہ قصبوں ، قریوں کی سیر کر کے لوٹے ۔ اس طوفانی دورے میں ایک ہفتہ صرف ہوا اور جن جگہوں کی سیر کی وہ تھیں ، دیپالپور ، بصیر پور، ڈیپ سنگھ ، ڈولہ پختہ، ڈیلمین گنج ، حویلی لکھا ، ہیڈ سلیمانکی ، پاکپتن ، اوکاڑہ ، ہڑپہ اور پتوکی ، پتوکی جو میرا ننہالی شہر بھی ہے اور میر ی جائے ولادت بھی ۔ ان جگہوں میں سے اکثر میری دیکھی بھالی ہیں مگر دو تین ایسے مقامات بھی تھے جو اس طویل عمر میں پہلی بار دیکھے اور جن کی سیر سے حاصل ہونے والا سرور اب میرے وجود کا حصہ ہے۔
قارئین! میں نے اپنی عمر عزیز کے ابتدائی پندرہ سولہ برس بصیرپور میں گزارے ۔ مشہور تاریخی شہر دیپالپور سے بیس پچیس کلومیٹر پر واقع یہ قصبہ میرا قریۂ خواب ہے، اس کی تلخ و شیریں یادیں میرے حافظے میں آباد ہیں۔ میں نے پہلی جماعت سے دسویں کلاس تک کا سفر اسی قریے میں طے کیا۔ میرے زمانے کا بصیر پور ایک سویا سویا خاموش قصبہ تھا جس کے اردگرد حدِ نگاہ تک سرسبز و شاداب کھیتوں ، درختوں اور باغوں کی سانس لیتی دنیا آباد تھی۔ قصبہ کیا تھا، ایک خاندان تھا جس کے باسی ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک تھے ۔ انھی میں وہ کلاس فیلو بھی تھے جو پہلی جماعت سے دسویں تک میرے شریک سفر رہے تھے۔ ان میں سے بعض میٹرک کرنے کے بعد وطن عزیز کے مختلف گوشوں اور کونوں کھدروں میں گم ہو گئے۔ کچھ نے عدم کی سرحد سے اُدھر ڈیرے جمالیے ، بہت سے زندہ و آباد ہیں اور زمانے کی نیرنگیوں کا تماشا کر رہے ہیں۔ ہمارے دردمند روایت دوست بھائی اعجاز حسین نے آج سے گیارہ برس پہلے زمانے کی گرد میں گم اِس بھولے بسرے کارواں کا کھوج لگانا شروع کیا تو بہت سوں کا اتا پتا معلوم کر ڈالا ، ان سے رابطے کیے، انھیں کہیں مل بیٹھنے کی ترغیب دی اور بڑی حد تک اس مشن میں کامیاب ہوئے۔ سو اُن کی اِن کاوشوں کے نتیجے میں چند برس پہلے بصیرپور کے ہائی سکول میں کتنے ہی ہم جماعتوں کا ایک یادگار اجتماع ہوا۔ عجیب منظر تھا۔ ہر ہم جماعت دوسرے کو نگاہِ حیرت سے دیکھتا تھا کہ ان پچپن چھپن برسوں کی گردش نے حلیے اور خدوخال بدل ڈالے تھے۔ جن چہروں پہ کبھی جوانی کا سبزہ آغاز ہوا تھا۔اب وہاں سفید ، براق داڑھیوں کی بہار اور لہلہاہٹ تھی۔ بعض چہروں پر جھریاں قبضہ جما چکی تھیں، لہجوں میں تبدیلی آ گئی تھی، رنگ پھیکے پڑ گئے تھے ، پیری نے آ لیا تھا۔ بابا کو ہی نے سیکڑوں برس پہلے کس عالمِ کرب میں کہا تھا: قد خم کند و چہرہ زریری پیری / بر ہم شکند صولتِ شیری پیری /گفتم کہ چہ بدتر است پیری یا مرگ؟ / آواز بر آورد کہ پیری
پیری (پیری کا بھی کیسا وبال ہے کہ یہ کمر کو خم اور چہرے کو ہلدی کر دیتی ہے۔ شیر جیسے طاقتوروں کی شان و شوکت درہم برہم کر دیتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ بڑھاپا بدتر ہے یا موت؟ جواب آیا کہ پیری، پیری!) ۔ اب کے بصیر پور گیا تو محبِ محترم میاں بشارت نے میرے ہم عمروں اور بعد والوں کا اپنے گھر کے صحن میں اجتماع کر رکھا تھا۔ انگیٹھی میں لکڑی کی ایک پوری گیلی سلگ رہی تھی۔ ارد گرد مونڈھوں پر بیٹھنے والوں کی منڈلی تھی۔ انگیٹھی سے اٹھنے والے دھوئیں سے بے نیاز یار لوگ پرانی یادوں کے الاؤ روشن کر رہے تھے۔ غرض کلام و طعام کی مختصر مگر بڑی پر لطف صحبت رہی ۔ یہاں سے اٹھے تو اعجاز صاحب کی معیت میں بصیر پور کے نواحی گاؤں ڈیپ سنگھ کا رخ کیا۔ یہاں اپنے سابقہ ہم جماعت حاجی اقبال نے دوستوں کو بلا رکھا تھا ۔ پر تکلف کھانے کے ہمراہ یاروں کی گرمیِ گفتار نے اور ہی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اچھا یہ بگھے خاں ہیں۔ گو کہ بڑھاپے نے آ لیا ہے مگر آج پینسٹھ سال بعد بھی باگھ کے سے وہی خدوخال رکھتے ہیں۔ گو پہلے جیسا طنطنہ نہیں رہا۔ اور لیجیے یہ ایک اور بزرگ چلے آ رہے ہیں۔ سر پر سفید رنگ کا بھاری عمامہ ، کمر میں خم مگر توقیر کی صورتِ مجسّم ! ہاتھوں میں عصا تھامے ۔ میرا اصل نام پکارتے ہوئے مجھ سے بغل گیر ہو گئے ہیں۔ اعجاز نے بتایا کہ سردار علی ہیں۔ حافظے کے ورق الٹے تو یاد آیا کہ ہاں یہ میرے بچپن کے شوخ و شنگ اور کھلنڈرے سردار علی ہیں مگر اب عالم یہ ہے کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی! ابھی ہم سانس بھی ہموار نہیں کر پائے تھے کہ ایک اور بزرگ پر نگاہ پڑی کہ آہستہ آہستہ قدم بڑھائے آ رہے ہیں، دھاری دار کمبل میں لپٹے جس کا غالب رنگ سرخ ہے۔ معلوم ہوا میرے کبھی کے ہم جماعت محمد شریف ہیں۔ ماضی کے اوراق الٹتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے: تمھیں یاد ہے کہ میٹرک کے امتحان کی تیاری کے دنوں میں ہم دونو بصیر پور سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نہر پر چلے جاتے تھے اور اس کے کنارے شیشم کے درختوں پر چڑھ کر اور ان کے دو شاخوں پر نشست جما کر اپنے اسباق یاد کیا کرتے تھے ۔ مجھے کچھ یاد آیا، کچھ نہ آیا۔ شاید یہی انسان کا مقدر ہے ۔ ہاں وہ نہر اب بھی بہتی ہے، بہتی رہے گی اور اپنی لطیف نغمگی کی جوت جگاتی رہے گی۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
ہمارے کلچر میں وہ دیہاتی ہو یا شہری ، ناموں کو بگاڑنے یا ان کے ساتھ کسی دُم چھلّے کے اضافے کا چلن عام ہے۔ مذکورہ پُرلطف مجلس میں ہمارے ایک ہم جماعت محمد حسین بھی موجود تھے۔ ان سے گیارہ برس پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی ۔ ناموں کے بگاڑیا ان کے ساتھ دم چھلّے کا ذکر چلا تو معاً بولے : اب آپ دیکھیے کہ میرے نام کے ساتھ بھی یار لوگوں نے ’’پلیتر‘‘ کا لاحقہ لگا رکھا تھا۔ بات یہ ہے کہ یہ لاحقہ ہم بچپن سے سنتے آئے تھے مگر کسی کو جرأت یا توفیق نہ ہوئی کہ ان سے پوچھتے کہ اس عجیب و غریب لفظ کے معنی کیا ہیں۔ اب جو ذکر چلا تو ایک صاحب کے پوچھنے پر محمد حسین نے وضاحت کی کہ یہ نہروں یا آبی گذرگاہوں میں پایا جانے والا ایک عجیب الخلقت جانور ہے جو کچھوے سے بڑی مشابہت رکھتا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ غالباً اسی کو ’’پریت‘‘ بھی کہتے ہیںمگر محمد حسین سے اس مخلوق کی مطابقت سمجھ میں نہ آئی۔ جس نے یہ نام دیا تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں کہ اس سے پوچھ لیتے کہ بھائی وجہ شبہ بتاؤ۔
کچھ دوستوں کا ذکر تو ہو چکا ، خوش قسمتی سے ہمارے دو ایک اساتذہ بھی حیات ہیں۔ اللہ انھیں تا دیر سلامت رکھے۔ کیسے کیسے بے نفس، ایثار پیشہ اور فرض شناس اساتذہ تھے ۔ روپے پیسے کی ہوس سے بے نیاز۔ بس ایک ہی دھن رکھتے تھے کہ قوم کے فرزندوں کی تربیت کریں اور ان کے سینوں میں اپنا علم اور اپنی دردمندی انڈیل دیں۔ انھی بے مثال اساتذہ میں علامہ ولی محمد اور حافظ بصیرپوری بھی تھے اور ہاں ماسٹر محمد حسن بھی جو پہلی جماعت میں میرے استاد تھے اور اردو خوشنویسی میں مہارت رکھتے تھے۔ نرسل کا قلم گھڑنے اور اسے قط لگانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ۔ اتنے عمدہ خطاط تھے کہ بس دیکھتے جائیے۔ میں نے سلیقے سے لفظ کاڑھنے کا فن انھی سے سیکھا۔ علامہ ولی محمدزبان دان تھے اور لفظوں کی آوازوں اور ان کے اتار چڑھاؤ کا عمدہ شعور اور ذوق رکھتے تھے، حافظ بصیرپوری عربی، فارسی کے عالم تھے ۔ میری ٹوٹی پھوٹی عربی فارسی ایک حد تک انھی کی مرہون احسان ہے۔ کس کس کا ذکر کروں۔ یہ سب اساتذہ گو کہ عالم بقا کو سدھار چکے مگر یہ اپنے شاگردوں کے وجود میں زندہ ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ ہمارے زندہ سلامت اساتذہ میں ایک محمد حسن بودلہ ہیں۔ ان سے چھپن برس بعد دیپال پور میں ملاقات ہوئی۔ اعجاز، میرا نواسہ عبداللہ اور ایک دو اور دوست میرے ہمراہ تھے۔ بودلہ صاحب بڑے فرض شناس استاد تھے ۔ حساب اور انگریزی میں طاق تھے۔ میں علم حساب میں اتنا ماہر نہ تھا جتنا دوسرے مضامین میں ۔ بودلہ صاحب حساب کے ممتاز اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ ہاں کم گو اور سخت گیر تھے۔ طلبہ ان سے معمولاً خائف رہتے تھے۔ حضرت کا عالم یہ تھا کہ کبھی چھٹی نہ کرتے تھے۔ شاید کبھی بیمار بھی نہیں ہوتے تھے! دیپال پور سے روزانہ بس سے بصیرپور آتے اور تدریس کے بعد لوٹ جاتے ۔ ایک بار عجیب اتفاق ہوا۔ بسوں کی ہڑتال ہو گئی۔ طالب علم نہایت خوش کہ آج بودلہ صاحب دیپال پور سے نہ آ پائیں گے ۔ کلاس کے اندر جشن کا سا سماں تھا کہ اچانک ایک لڑکے نے سکول کے گیٹ کی طرف اشارہ کیا ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بودلہ صاحب سائیکل پر سوار، پچیس کلومیٹر کا سفر طے کر کے کلاس شروع ہونے کے عین وقت سکول کے احاطے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہی طلبہ کا نشہ ہرن ہو گیا۔ نجات کادر بند ہو چکا تھا!