اپنے ٹوئٹ پر کالم کا عنوان گوجرانوالہ کے معروف صحافی ساجد اسعدی ورک کی خواہش پر رکھا۔کسی بھی مہذب ملک حتیٰ کہ اب تو ہر ملک میں حکومت کا پروگرام چار سالہ، پانچ سالہ، دس سالہ منصوبہ ہوتا ہے جبکہ ریاستیں عشروں پر محیط منصوبہ سازی کرتی ہیں۔ جن ممالک میں جمہوریت ہے سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں۔ اگر حکومت میں آ جائیں تو ان کی زیادہ سے زیادہ کوشش اپنے دیے گئے منشور پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اپاہج جمہوریت میں بھی سیاسی جماعتیں کوشش کرتی رہی ہیں کہ وہ اپنے منشور پر عمل کریں۔ زرداری حکومت میں آئینی اصلاحات، دہشت گردی پر کنٹرول اور جمہوری مدت کی ہر صورت میں تکمیل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے روزی روٹی اور روزگار کا بندوبست کرنے کی کوشش کی گئی۔ میاں صاحب کے دور میں ان کا ہدف بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا جو انہوں نے کر دیا جبکہ پنجاب میں شہباز شریف کی انتظامی اصلاحات اور خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ نئے پاکستان میں لوگ پرانے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
پٹرول مہنگا، ڈالر مہنگا، بجلی مہنگی ہو تو وزیراعظم چور ہے، کہنے والے کے تین سالہ دور میں زندگی کی بنیادی ضروریات حسرتوں میں بدل گئیں۔ موجودہ حکمران ٹولے نے اپنے منشور پر زیرو فیصد بھی عمل نہیں کیا اور تبدیلی کا دعویٰ عملی طور پر تباہی ثابت ہوا۔ کابینہ کے وزیراعظم کے دل و دماغ اور اعصاب پر اپوزیشن بُری طرح سوار ہے حتیٰ کہ اپوزیشن فوبیا میں مبتلا ہیں۔ مجھے یاد ہے عمران خان نے 2011 میں مینار پاکستان میں میاں صاحب اور زرداری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ماضی کے سیاستدانوں سے کہتا ہوں!!!! مگر آج وزیراعظم ہوتے ہوئے خود ماضی میں گم ہوتے چلے جا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب وہی سیاستدان آج عوام کی امیدوں کا محور بن گئے۔ آج اگر انتخابات ہوں تو پنجاب میں ہونے والے انتخابات مرکز کی حکومت کا فیصلہ بھی کر دیں گے۔ جہاں میاں نواز شریف پی ٹی آئی کی تو ضمانتیں ہی ضبط کرا دیں گے، مقابلہ پیپلز پارٹی ،دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروںسے ہو گا۔ جس کا سبب موجودہ حکمرانوں کا طرز سیاست، بے حسی، تکبر، جھوٹ اور عوامی خواہشات کے برعکس پالیسیاں ہیں بلکہ سرے سے کوئی پالیسی ہے ہی نہیں۔ ان کی اب تک کی کارکردگی میں کورس کی صورت میں اپوزیشن کو چور ڈاکو کہنا اور طنزیہ غیرمہذب فقروں کے علاوہ کچھ نہیں۔
دوسری جانب عوام کے ساتھ حکومتی پالیسیاں حاکم نہیں حملہ آوروں جیسی ہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ اچانک نیا ظلم مسلط کیا جاتا رہا اور جاری ہے۔ حالیہ منی بجٹ بل پاس ہو نہ ہو، پیش کر دیا گیا لہٰذا مہنگائی مزید بڑھ گئی۔ دراصل انتقام کی آگ میں جلتے اپوزیشن کے لیے منہ سے آگ نکالتے ہوئے حکمران کبھی ہوش میں نہیں آ سکتے۔ لے دے کے انہیں صرف ایک ہی سہارا ہے وہ جو ان کو لے کر آئے تھے یا پھر حالات اس قدر خراب کر دیے کہ ان حالات میں کوئی حکومت لینے کو تیار نہیں اور حالات کو درست کرنا کسی ایک پارٹی کی قیادت کے بس کا کام نہیں۔ اگر یہ سلسلہ حکمرانی اسی انداز میں جاری رہا تو پھر پاکستان اور موجودہ حکمران ایک ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ لوگ اعضا یا ایک دوسرے کو نہیں حکمرانوں کو کھا جائیں گے۔ یاد رہے جب قیادت ہو تو انقلاب آتا ہے جب قیادت نہ ہو تو انارکی آتی ہے۔
بھوک، افلاس، غربت، بیماری، بیروزگاری سے مرنے کے بجائے لوگ ٹکرانے کو ترجیح دیں گے۔ موجودہ حکمران اور بالخصوص کابینہ کے وزیر اعظم کا جس نے ساتھ دیا جس نے کندھا دیا اس کا کندھا ہی ساتھ نہ رہا۔ جو لے کر آئے تھے ان کی اپنی عزت وقار اور کہی ہوئی بات بے بھروسہ ہو گئی۔ موجودہ حکمران ٹولے نے اپنے منشور کو حکومت میں آنے کے بعد یکسر بھلا دیا۔ عوام کو بھوک دے کر پوری دنیا کے نظام ہائے حکومت پڑھا دیے۔ ابھی امریکہ، انگلینڈ، یورپ، سعودی عرب سے ترکی، چائنا اور ریاست مدینہ سے ہوتے ہوئے نہ جانے کس کس نظام ہائے حکومت کا سفر کرا دیا۔ جب قوم اور لانے والوں کی آنکھ کھلی تو وطن عزیز نے 73 سال میں اگر کچھ مثبت حاصل کیا تھا سب برباد کر دیا حتیٰ کہ ثقافت، روایات، معاشرت، اخلاقیات کو زمین بوس کر دیا۔ ملک ہوش ربا بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ کاغذوں، خبروں میں سب کچھ تعمیر کیا، تقریروں کا میلہ لگا دیا، بین الاقوامی لیڈری کے شوق میں دنیا میں تنہائی کا شکار ہو گئے۔ اندرون ملک جس نظام کے تحت حاکم بنے ہیں اس کے تقاضے کے مطابق سیاسی جماعتوں اپوزیشن حتیٰ کہ اتحادیوں سے بھی رابطہ کرنا ہتک عزت سمجھا، گویا حکمرانی نہ ہوئی اذیت رسانی ہو گئی۔ نتیجہ! عدم اعتماد، اسمبلی تحلیل یا پھر لانے والوں کے خلاف ایڈونچرزم جو بھی ہوا موجودہ حکومت مارچ سے پہلے سابقہ ہو چکی ہو گی۔ میرے پاس کوئی چڑیا نہیں لیکن جو تجزیہ نگار عمران خان کو نجات دہندہ ثابت کر رہے تھے 120کے زاویے سے یوٹرن لے گئے جو انجام قریب بتاتا ہے۔
موجودہ حکمرانوں نے تو پوری قوم کا کدو کش کر کے رکھ دیا 23 کروڑ میں سے سوائے حکمران طبقوں کے ہر شخص آہ و بکا کی حالت میں دیکھا گیا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدارو! خلیفہ راشدین کے وقت میں دوسرے خلیفہ نے ایک صوبہ میں گورنر مقرر کیا تو اس کو نصیحت کی کہ لوگوں سے جب واجبات وصول کرو گے تو ایک نظر واجبات دینے والوں کی پیشانی پر ڈال لینا کہ کہیں ان کی پیشانی پر پریشانی کے بل تو نہیں آئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ٹیکس دہندہ کو کوفت تو نہیں ہوتی گراں تو نہیں گزرتا۔ حضرت بلالؓ کی دعا تھی کہ اے پروردگار! ’’ظالم اپنے آپ کو مظلوم کے بدن میں محسوس کرے‘‘۔ اگر آج کے حالات میں اس دعا کو دہرایا جائے تو یقیناً کہا جائے گا کہ اے پروردگار! ’’کاش ہمارے حاکم اپنے آپ کو محکوم، عوام رعایا کے بدن میں محسوس کریں‘‘۔ حکمران تو قوم کو اولاد کی طرح سمجھتے ہیں۔ اسی ملک میں اسی سرزمین پر ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا کہ میں نے گریٹ بھٹو کو لوگوں، کمیوں، ہاریوں، غریبوں کے دکھ میں روتے دیکھا۔ مگر جو حاکم حملہ آور کی طرح Behave برتاؤ کریں ان کے دور میں برکت کے بجائے نحوست ہوا کرتی ہے۔ جو وطن عزیز پر چند سال سے آکسیجن سے زیادہ اتری ہوئی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں، اچانک وارداتیں، کہہ مکرنیاں، الزام دشنام طرازی، منتقم مزاجی، بے حسی، ڈھٹائی، دیکھ کر تو بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ حاکم نہیں حملہ آور ہو تم۔ حکومتیں اور ریاستیں اس طرح کبھی چلتی ہیں نہ قائم رہتی ہیں۔ مگر اب کی بار اگر ڈھٹائی جاری رہی تو ایک واقعہ یاد دلا دوں۔ کسی نے گدھے پر کانچ کی چوڑیوں کا بورا لادا ہوا تھا داروغہ نے ڈنڈا مارا کہ اس میں کیا ہے۔ اس نے کہا ذرا احتیاط سے، بتانے ہی لگا تھا کہ اس نے دوسرا ڈنڈا مار دیا اور پوچھا جلدی بتاؤ؟ چوڑیوں والا ہکابکا گنگ تھا کہ اس نے تیسرا ڈنڈا مار دیا اور کہا جلدی بتاؤ کیا ہے؟ وہ کہنے لگا، چوڑیاں تھیں اب کچھ نہیں رہا۔ اگر اب کی بار بھی ڈنڈا ہی مارا تو پھر ریاست، حکومت، سلطنت کا حال چوڑیوں کے بورے پر تیسرے ڈنڈے کے بعد جیسا ہو گا۔